صدر دہلی اقلیتی کمیشن ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور ممبر اقلیتی کمیشن کرتار سنگھ کوچر نے ایک مشترکہ خط میں وزیر داخلہ امیت شاہ کو کہا ہے کہ تبلیغی مرکز میں محصور لوگ وہاں کسی سازش کی وجہ سے جمع نہیں تھے بلکہ وہ بھی کورونا وائرس کا اسی طرح مظلوم و شکار تھے جس طرح دنیا کے دوسرے لوگ شکار ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ تبلیغی جماعت کے ایک گروپ نے معاملے کی سنگینی کو نہیں سمجھا اور آنے والے خطرے کے خلاف پیش بندی کرنے کے بجائے معمول کے مطابق اپنے پروگرام کرتا رہا، جبکہ تبلیغی جماعت کے دوسرے گروپ نے جس کا مرکز ترکمان گیٹ پر ہے، مارچ کے شروع سے ہی اپنے سارے پروگرام بند کر دیے تھے۔
مرکز تبلیغ نظام الدین اس معاملے میں اکیلا نہیں تھا بلکہ پورے ملک میں بہت سے سیاسی رہنماؤں اور دوسرے لوگوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کے باوجود اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
اقلیتی کمیشن نے اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ تبلیغی مرکز سے لوگوں کو نکال کر طبی مراکز اور قرنطینہ سنٹروں میں لے جانا بالکل درست تھا۔ اسی طرح یہ بھی درست تھا کہ تبلیغی مرکز میں جمع لوگوں سے ربط میں آنے والوں کو تلاش کرکے ان کی بھی جانچ کی جائے اور ضرورت ہو تو ان کو قرنطینہ میں رکھا جائے۔ لیکن حکومتی ذمہ داروں کے غلط بیانات اور میڈیا کی سنسنی خیر رپورٹنگ کی وجہ سے اس کے غلط اثرات مرتب ہوئے۔ ملک بھر میں ہر ‘تبلیغی’ شخص مشکوک قرار پایا اور کہا جانے لگا کہ یہ لوگ ‘چھپے’ ہوئے ہیں اور ان کو تلاش کرکے قرنطینہ میں ڈالا گیا۔
کمیشن نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ محض تبلیغی جماعت سے تعلق کی بناء پر کوئی کورونا وائرس لیکر نہیں گھومتا ہے بلکہ صرف ان لوگوں کی تلاش ہونی چاہیے تھی جو کورونا پھیلنے کے وقت مرکز تبلیغ میں تھے یا وہاں موجود لوگوں کے ربط میں آئے تھے۔ تبلیغی جماعت سے منسلک وہ لوگ جو مرکز میں اس وقت نہیں تھے اور جو مرکز میں اس وقت رہنے والے لوگوں کے ربط میں نہیں آئے تھے، ان کو مشکوک نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ کورونا وائرس پر کوئی تبلیغی ٹھپہ نہیں لگا ہوا ہے۔ لیکن ہو یہی رہا ہے کہ ملک بھر میں کسی بھی تبلیغی کو گرفتار کیا جارہا ہے چاہے وہ مرکز تبلیغ میں مذکورہ وقت رہا ہو یا نہیں یا وہاں رہنے والوں کے ربط میں آیا ہو یا نہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی موبائل کال ڈیٹیل ریکارڈ سے یہ بات بآسانی نکالی جاسکتی ہے کہ اس وقت وہ کہاں تھا اور کس سے ملا تھا۔