گلفشاں فاطمہ کے بھائی عقیل حسین نے وکیل محمود پراچہ کے ذریعہ رہائی کے لیے عرضی داخل کی تھی۔ لیکن جسٹس وپن سانگھی اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بینچ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عرضی خارج کر دی۔ عدالت نے کہا کہ چونکہ ملزم سیشن جج کے حکم پر عدالتی تحویل میں ہے، لہذا اس عرضی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
گلفشاں فاطمہ کی رہائی کے لیے داخل عرضی خارج عدالت نے کہا کہ یو اے پی اے ایکٹ کے تحت صرف خصوصی عدالتیں ہی سماعت نہیں کرسکتی ہیں بلکہ اس ایکٹ کے تحت این آئی اے کے علاوہ دیگر پولیس کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ یو اے پی اے کے تحت ان معاملات کی چھان بین کرے۔ عدالت نے کہا کہ این آئی اے ایکٹ کی دفعہ 6 (7) میں ہے کہ جب تک این آئی اے کسی معاملے کی تفتیش شروع نہیں کرتی ہے، تب تک اس تھانہ کے انچارج کو اپنی تفتیش جاری رکھنے کا حق حاصل ہے جس تھانہ میں یہ معاملہ درج ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یو اے پی اے کے تحت درج تمام معاملات کی جانچ این آئی اے ہی کرے گی۔
گلفشاں فاطمہ کی رہائی کے لیے داخل عرضی خارج گلفشاں فاطمہ کے بھائی عقیل حسین نے معروف وکیل محمود پراچہ کے ذریعہ دائر عرضی میں کہا ہے کہ اسے 9 اپریل کو ظفرآباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کے کنبہ کے افراد سے دہلی پولیس کی خصوصی سیل کے لوگ کئی بار مل چکے ہیں۔ محمود پراچہ نے کہا کہ فاطمہ کو ایک ایف آئی آر میں سیشن عدالت سے ضمانت ملی ہے۔ دوسری ایف آئی آر میں فاطمہ کے خلاف یو اے پی اے کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یو اے پی اے کے معاملوں کی سماعت کرنے والی خصوصی این آئی اے کورٹ نہیں بیٹھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ضمانت کی عرضی دائر نہیں کی جا رہی ہے اور ملزم جیل میں بند ہے۔
بتا دیں کہ گذشتہ 13 مئی کو دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت نے ایک معاملے میں گلفشاں فاطمہ کی ضمانت منظور کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اسے رہا نہیں کیا جا سکا۔ کیونکہ اس کے خلاف یو اے پی اے کے تحت دوسرا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ گلفشاں فاطمہ ایم بی اے کی طالبہ ہیں۔ فاطمہ پر الزام ہے کہ اس نے گذشتہ 22 فروری کو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے قریب لوگوں کو سڑک بلاک کرنے پر اکسایا تھا۔ فاطمہ کو پولیس نے گذشتہ 9 اپریل کو گرفتار کیا تھا۔
بتا دیں کہ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد میں 53 افراد ہلاک اور دو سو کے قریب افراد زخمی ہوئے تھے۔