شہریت ترمیمی قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے مظاہرے اور پولیس کی لائبریری میں گھس کی گئی مبینہ کارروائی کے خلاف 16 دسمبر سے جامعہ کے گیٹ نمبر سات پر مسلسل مظاہرہ جاری ہے جو تقریباً چھ بجے ختم ہوجاتا ہے لیکن کچھ طلبہ اور طالبات ایسے ہیں جو اس کے بعد سے رات کے چار بجے تک اپنے بدن پر ترنگا لپیٹے، آئین کی تمہید اور تختی اٹھائے احتجاج کرتے ہیں۔
اس طرح کے احتجاج کرنے والے وہ طلبہ و طالبات ہیں جن لوگوں کو جامعہ کی لائبریری میں گھس کر پولیس نے زدوکوب کیا تھا اور پولیس نے ان کے ہاتھ اٹھا کر ایک مجرم کی طرح ان طلباء کی پریڈ کروائی تھی۔
ان طلباء میں سے رضی انور، صادق خان، ساجد اور فراز نے بتایا کہ ہم لوگوں نے پولیس کارروائی کے خلاف شکایت کی تھی لیکن کوئی کارروائی نہ ہونے پر ہم لوگ 17 دسمبر سے مسلسل شام میں چھ بجے سے صبح چار بجے تک ترنگا لپیٹے، آئین کی تمہید لیے اور آئین کی حمایت میں تختی لیے کھڑے رہتے ہیں۔
میڈیا نے جب ان سے اس سخت سردی اور رات کی کڑاکے کی ٹھنڈ میں کھڑے ہوکر احتجاج کرنے کی وجہ سے پوچھی تو انہوں نے کہاکہ 'جب حکومت ہی تشدد پر اتر آئے اور آئین کے خلاف کام کرنے لگے تو عوام کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر اترنا ہی پرتا ہے، جمہوریت ہمیں احتجاج کرنا سکھاتی ہے اور اپنے حقوق اور خاص طور پر آئین کی حفاظت کے لیے ہر شہری کو سڑکوں پر اترنا چاہیے اور حکومت کو مجبور کرناچاہیے کہ وہ کوئی ایسا غیر آئینی کام نہ کرے۔
انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری اور لڑکیوں کے ہاسٹل پر پولیس کی مبینہ بربریت کو ملک کی سیاہ ترین باب قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں اس طرح کا حملہ نہیں ہوا ہے اور پولیس نے کسی طرح کی بربریت لائبریری میں گھس کر نہیں کی تھی، انہوں نے کہا کہ حکومت نہ صرف غیر آئینی کام کر رہی ہے بلکہ غیر قانونی زبان اور شرپسندوں کی زبان استعمال کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف جامعہ اور شاہین باغ کے علاوہ ملک کے دیگر حصے میں احتجاج جاری ہے۔