شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے گزشتہ 16 دسمبر سے سریتا وہار کالند کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔
شاہین باغ کی خواتین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء پر پولیس کی مبینہ بربریت کے خلاف محاذ سنبھالا تھا جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔
مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں، بہار کے گیا، پٹنہ، ارریہ، مدھوبنی اور دیگر علاقوں میں سمیت الہ آباد میں منصور علی پارک (روشن باغ) اور دہلی کے سیلم پور، ذاکر نگر ڈھلان پر خواتین مستقل مظاہرہ کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ راجستھان کے کوٹہ شہر میں بڑی تعداد میں خواتین نے جلوس نکال کر اس قانون کی مخالفت کی۔
شاہین باغ خواتین کا مظاہرہ کا تذکرہ نہ صرف ملک کے کونے کونے میں بلکہ پوری دنیا میں اور ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہورہا ہے اور ان کی حمایت میں مظاہرے کیے جانے کی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں۔
شاہین باغ خواتین مظاہرے کو ایک مہینہ مکمل ہونے والے ہیں اور شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ سبھی خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
ایک دن کے بچے سے لے کر 90 سالہ خواتین بھی اس مظاہرے میں شریک ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ 'ہم آئین کو بچانے کے لیے آئے ہیں۔
مظاہرے میں خواتین کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جوں جوں رات جوان ہوتی ہیں خواتین اور دیگر مظاہرین کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ اس مظاہرے کی حمایت میں آرہے ہیں اور شاہین باغ خواتین کے جذبے کو سلام کرنے کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
شاہین باغ میں اتوار کو لاکھوں مرد و خواتین نے جمع ہو کر دکھایا کہ وہ کتنے متحد ہیں نیز اس کے ساتھ شاہین باغ مظاہرین اسکوائر پر پنڈتوں نے ہَوَن، سکھوں نے کیرتن، بائبل اور قرآن کی تلاوت کرکے یکجہتی کا پیغام دیاْ
شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہَوَن بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ماتھے پر ٹیکے بھی لگائے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔
شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی خاص بات ہے کہ یہ کسی منتظم کے بغیر ہے، اس کے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ہے، اس کے باوجود یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔
شاہین باغ اور دور دراز سے لوگ کھانے کا پیکٹ گاڑیوں میں بھر کر لاتے ہیں یا خود تفسیم کرتے ہیں یا رضا کاروں کے حوالے کردیتے ہیں، کوئی پانی کی بوتلیں لیکر آتا ہے تو کوئی سموسہ لیکر آتا ہے تو کوئی کھانے کی دیگر اشیاء۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہاں 'سیکولر' چائے ملتی ہے جو مستقل بنتی رہتی ہے اور ہزاروں لوگ پیتے ہیں، اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے تھرماس میں لوگ چائے بناکر لاتے ہیں اور مظاہرین میں تقسیم کرتے ہیں، کوئی انڈا تقسیم کرتا ہے، کوئی بسکٹ لیکر آتا ہے۔
شاہین باغ مظاہرین میں بریانی کے 1800 پکیٹس تقسیم کرنے والے حسین احمد نے بتایا کہ میں اس کے ذریعہ مظاہرہ کرنے والی خواتین کو سلام کرتا ہوں اور اس کے ذریعہ ان کی حمایت کرنا مقصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'یہاں مکمل طور پر گنگا جمنی تہذیب کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے ایک بینر پر اوم، اللہ، سکھ کا مذہبی نشان اور صلیب کا نشان ہے،کئی بینرز ایسے بھی ہیں جس پر لکھا ہے کہ 'نو کیش نو اکاؤنٹ'۔
شاہین باغ میں دہلی یونیورسٹی سے سیجو، ابھتسا چوہان اور خوشبو چوہان بھی ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ شاہین باغ خواتین کا حوصلہ بڑھانے کے لیے آئی ہیں۔
باجے بجا کر اس متنازع قانون کی مخالفت کی جا رہی ہے، بچے ہاتھوں میں کینڈل جلا کر اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں، مظاہرہ میں شامل گیارہ سالہ فیضان احمد، عاصیہ ندیم، رقیہ ندیم اور چھ برس کے عدنان نے کہا کہ 'ہم ملک اور آئین کو بچانے نیز سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے آئے ہیں جبکہ نویں جماعت کی جامعہ کی طالبہ نے بتایا کہ 'مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا یہ قانون ہمیں منظور نہیں ہے۔
سماجی کارکن ملکہ نے کہا کہ 'اس قانون سے غریب اور کمزور طبقہ کے سبھی مذاہب کے لوگ متاثر ہوں گے اس کی مخالفت اس کی واپسی تک جاری رہے گی۔
مظفر پور کی رہنے والی خاتون نے اس مظاہرہ کے دوران کہا کہ 'ہم آزادی مانگنے آئے ہیں، مظاہرے میں شریک ایک دیگر خاتون نسیم بانو نے کہا کہ 'ہم سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے آئی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ جب ملک ہی نہیں بچے گا تو ہم لوگ کیسے بچیں گے، مزید ایک خاتون نے کہا کہ 'میں یہاں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے آئی ہوں۔
اس کے علاوہ بچوں کا چھوٹا چھوٹا گروپ ہے جو مختلف طرح کے انقلابی نعرے لگارہا ہے، یہاں جتنی خواتین آتی ہوئی نظر آتی ہیں اتنی ہی خواتین جاتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں، یہاں آس پاس کی دوکانیں گزشتہ ایک ماہ سے بند ہیں، جس کی وجہ سے دوکانداروں کوبھی نقصان اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ یہا ں ایک چھوٹا سا میڈیکل کیمپ بھی ہے جہاں مختلف ڈاکٹرز رضا کارانہ طور پر بیٹھتے ہیں اور چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج اور طبیعت خراب کرنے والوں کو طبی امداد فراہم کرتے ہیں۔
اس مظاہرہ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ مختلف سیاسی اور سماجی کارکن اس کی حمایت کر رہے ہیں، اگرچہ اس مظاہرے کو سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے دور رکھا جارہا ہے لیکن کوئی نا کوئی شخص اس کی حمایت کرنے کے آہی جاتا ہے، ان میں سیاست داں سماجی کارکن، فلمی شخصیات، سابق نوکر شاہ، تعلیمی، معاشی، اور سماجی شخصیات شامل ہیں۔
کانگریس کے سینیئر رہنما ششی تھرور نے بھی شاہین باغ مظاہرے مین شرکت کی تھی اور کہا تھا کہ 'مودی حکومت ملک کے مشترکہ ورثے اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن ملک کی عوام ان کی اس منشاء پورا ہونے نہیں دیں گے۔
مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے شاہین باغ کی خواتین کو شاہین صفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'شاہین کبھی ناکام نہیں ہوتا اور کامیابی آپ کی قدم چومے گی اور آپ کی یہ لڑائی منزل کے بغیر ختم نہیں ہونی چاہیے۔
شاہین باغ سے جامعہ اسکوائر تک چلنے والے اس مظاہرہ میں شامل ہونے والی سماجی کارکن سیما اسلم نے کہا کہ ہم احتجاج میں اس لیے آئے ہیں ہمیں حراستی کیمپ میں نہیں جانا اس لیے خواتین اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں کیوں کہ جب کوئی بھی بات پیش آتی ہے تو سب سے زیادہ خواتین ہی اس سے متاثر ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ احتجاج اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک اس کو واپس نہیں لیا جاتا ہے۔
سیمانچل سے تعلق رکھنے والی خاتون مظاہرین نے کہا کہ 'آج اس کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ غریب لوگ شہریت کا ثبوت کہاں سے پیش کریں گے جب کہ اس کے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ ہی نہیں ہے اور خاص طور پر خواتین جب شادی کر کے سسرال چلی جاتی ہیں زیادہ تر ان کے نام سے کوئی جائیداد نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس پیسہ ہے ہم دستاویزات بنوالیں گے لیکن غریب خواتین کہاں سے دستاویزات لائیں گی۔
شاہین باغ میں خواتین مظاہرین کی حمایت کرتے سوراج ابھیان کے صدر یوگیندر یادو نے کہا کہ 'میں یہاں ملک اور آئین کو بچانے کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے خواتین کے جذبے کو سلام کرتے ہوئے کہا کہ 'خواتین آئین کی حفاظت کے لیے اس سخت سردی کے موسم میں آرام و آرائش چھوڑ کر دن رات دھرنا دے رہی ہیں۔
کل ہند مسلم یوتھ فورم کے سرپرست ٹی ایم ضیاء الحق نے مظاہرہ میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ 'شاہین باغ کا خواتین مظاہرے نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ یہاں کی خواتین اپنے حقوق اور ملک کے آئین کی حفاظت میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ ہندوؤں کے بھی خلاف ہے۔
پیپلز آف ہوپ کے چیئرمین رضوان احمد نے خواتین کے مظاہرے کو ظلم و جبر اور آئین کے حق میں جنگ کو ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہاکہ 'بغیر کسی رہنمائی اور بغیر کسی انتظام کے مسلسل مظاہرہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب وہ اپنی طاقت دکھانے پر آجائے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
مشہور روحانی گرو سوامی اگنی ویش نے کہا کہ 'آج ساری انسانی برادری کا متحد ہوکر ظلم کرنے والوں کے خلاف لڑنا اور مظلوموں کا ساتھ دینا ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانیت ہمارا سب سے بڑا مذہب ہے اور اسی کو لے کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے تناظر میں کہا کہ کچھ لوگ ہمیں باٹنے کی کوشش کریں گے لیکن ہمیں متحد رہنا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف خواتین کا احتجاج دیکھ کر اور خود کو آپ لوگوں کے درمیان پا کر فخر محسوس کر رہا ہوں۔
اس مظاہرہ کے انتظام و انصرام سے وابستہ محمد رفیع اور صائمہ خان نے بتایا کہ 'مظاہرہ کی خاص کی بات یہ ہے کہ یہ بغیر کسی تنظیم کے ہے اور نہ ہی اس مظاہرہ میں اب تک کسی کو بلایا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی منتظم ہے بس ہم لوگ یہاں کا تھوڑا بہت انتظام دیکھ لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مظاہرہ کسی فرقہ کے حق کے لیے نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ہم آئین کی حفاظت کے لیے سردی کی سخت ترین راتوں میں مظاہرہ کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی ملک آئین سے چلتا ہے اور جب آئین ہی نہیں بچے گا تو ملک کیسے بچے گا۔ یہ پوری دہلی بلکہ پورے ملک کی خواتین کو پیغام دے رہی ہیں کہ ظلم اور ناانصافی اور اس متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور دھرنا میں کسی سے بھی وہ پیچھے نہیں ہیں اور وہ صرف زندگی میں ہی مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں بلکہ ملکی حالات، مظالم خلاف اور پولیس کی بربریت کے خلاف اپنے آنچل کو پرچم بنانا بخوبی جانتی ہیں۔
دن رات کے مظاہرے میں حال ہی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آئی جی کے عہدے سے استعفی دینے والے عبد الرحمان، فلمی اداکار ذیشان ایوب، مشہور سماجی کارکن، مصنف اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر، فلم اداکارہ سورا بھاسکر، کانگریس رہنما سندیپ دکشت، بارکونسل کے ارکان، وکلاء، جے این یو کے پروفیسر، سیاست داں سریشٹھا سنگھ، الکالامبا، رکن اسمبلی امانت اللہ خان، سابق رکن اسمبلی آصف محمد خاں، بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد، سماجی کارکن شبنم ہاشمی، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ سیدین حمید، گوہر رضا، پپو یادو وغیرہ نے اب تک شرکت کرکے ہمارے کاز کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آگے بھی ملک کی اہم شخصیت کی شرکت کی توقع ہے۔
اس مظاہرہ میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو 16 دسمبر سے مسلسل بھوک ہڑتال پر ہے مگر انتظامیہ کے کسی شخص نے اس کی خیریت لینے کی کوشش نہیں کی ہے، یہ شخص صرف سیال(مائع) چیزوں پر ہے۔ اس کے ساتھ ایک خاتون مہر النسا بھی ہیں جو گزشتہ دو ہفتوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ بھوک ہڑتال کو اتنے دن ہوگئے لیکن نہ تو دہلی حکومت کا کوئی نمائندہ اور نہ ہی مرکزی حکومت کا کوئی نمائندہ ان سے ملنے آیا ہے۔