عمر خالد کی عرضی کو دہلی کی ایک عدالت نے مسترد کردیا۔ عمر خالد ستمبر 2020 سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اس وقت دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت نے آج جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کو 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ’گہری سازش‘ کیس میں ضمانت دینے سے انکار کردیا۔ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے خالد اور استغاثہ کی طرف سے پیش ہونے والے وکلا کے دلائل سننے کے بعد 3 مارچ کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ دلائل کے دوران ملزم نے عدالت کو بتایا تھا کہ استغاثہ کے پاس جرم ثابت کرنے کے لیے مناسب شواہد کی کمی ہے۔
2020 دہلی فسادات کیس میں عمر خالد کی بے گناہی کا دعوی کرتے ہوئے تردیپ پیس نے مزید کہا تھا کہ زیادہ تر الزامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے پروسیکیوٹر سے سوال کیا کہ ان کے موکل کے خلاف کیا ان کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمر خالد پر پروسیکیوٹر کی جانب سے لگائے گئے الزامات مکمل طور پر من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔ پیس نے اے ایس جے راوت سے کہا تھاکہ "یہ پروسیکیوٹر کا محض ایک افسانہ ہے۔ آپ پہلے ایک کہانی بناتے ہیں اور پھر اس کہانی کو مکمل کرنے کے لیے ثبوت بنانا چاہتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ 2020 کے دہلی فسادات کیس میں سازش کے لیے پروسیکیوٹر کی طرف سے داخل کردہ چارج شیٹ میں خالد کے خلاف بغیر کسی بنیاد کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
ان دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد نے اے ایس جے سے مطالبہ کیا کہ عدالت عمر خالد کی درخواست ضمانت خارج کرے۔ درخواست ضمانت پر بحث کے دوران، پرساد نے عدالت میں کہا تھا، "آخری مقصد حکومت کا تختہ الٹنا، پارلیمنٹ کے اختیارات کو کمزور کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خالد کا مقصد حکومت کو گھٹنوں کے بل لانا تھا تاکہ سی اے اے کو واپس لیا جائے۔ یہ بات ان چیٹس سے واضح ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حکومت کو گھٹنوں کے بل لانا پڑے گا۔"