مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ 'ایسے وقت میں جبکہ پورا ملک کورونا جیسی مہلک بیماری کی لپیٹ میں ہے ملک کے شہری ڈر اور خوف کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں، لیکن نفرت کی سیاست کا کھیل بہت منصوبہ بند طریقے سے جاری ہے۔ کورونا کے خلاف موثر اور فیصلہ کن جنگ لڑنے کی جگہ حکومت کو اپنے طے شدہ نشانے کو پورا کرنے کی زیادہ جلدی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھاکر کچھ لوگ بے گناہوں کے خلاف قانونی کارروائی کر کے فرقہ پرستی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں۔'
انہوں نے سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والوں کی اندھادھند گرفتاریاں اور دہلی فسادات میں ہو رہی یکطرفہ کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ لاک ڈاؤن کے درمیان بھی خاص طور پر مسلم اقلیت کے خلاف اپنے خفیہ ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ارباب سیاست کی طرف سے پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے کے الزام میں بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ افسوس کہ سابق بیوروکریٹ ہرش مندر جیسے انسانی حقوق کے کارکن اور شاہین باغ میں لنگرلگاکر کھانہ تقسیم کرنے والے ایک انسانیت نواز سکھ ڈی ایس بندرا کو بھی پولیس کے ذریعہ ملزم بنایا گیا ہے۔'
مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ پولیس کا کیا رویہ رہتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے تلنگانہ ہائی کورٹ کا حالیہ تبصرہ کافی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ ہائی کورٹ نے ایک پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کو لاک ڈاؤن کے دوران مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات درج کرنے پر پھٹکار لگاتے ہوئے حیدرآباد پولیس سے سوال کیا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں درج کئے گئے کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہیں کی۔ سماعت کے دوران بینچ نے مشاہدہ کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران پولس کا اس اقلیت کے ساتھ سلوک ٹھیک نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ فسادات میں حملہ بھی مسلمانوں پر ہوتا ہے، مسلمان ہی مارے جاتے ہیں، انہیں کے مکانات و دکانات کو جلایا جاتا ہے اور سنگین مقدمات لگاکر انہیں ہی گرفتار کیا جاتا ہے۔ دہلی میں بھی پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں مسلمانوں کو سنگین مقدمات کے تحت گرفتار کر رہی ہیں اور گرفتار کیے گئے مسلمانوں کے خلاف متعصب میڈیا ٹرائل چلاکر مسلمانوں کے خلاف ماحول بنارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ دہلی فساد میں جن 53 لوگوں کی موت ہوئی تھی، ان میں مسلمانوں کی تعداد 38 بتائی جاتی ہے جو پولس کے سایہ میں فسادیوں کے ہاتھوں انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل ہوئے، لیکن پولیس نے ان میں سے چند ہی لوگوں کے معاملے میں تحقیقات کی ہے اور باقی لوگوں کے قتل کی ذمہ داری نامعلوم فسادیوں کے سر ڈال دی گئی ہے۔ اس کے برعکس آئی بی افسر انکت شرما اور کانسٹبل رتن لال کی موت کے معاملے میں درجنوں مسلمانوں کو نامزد کر کے چارج شیٹ بنائی گئی ہے۔
مولانا مدنی نے کہاکہ واقعہ یہ ہے کہ فساد کا ذمہ دار کپل مشرا‘انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی قابل اعتراض تقریروں اور بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی پوری ذمہ داری مظاہرین پر ڈال دی گئی ہے۔ ان کے خلاف سخت دفعات لگائی گئی ہیں جن میں یو اے پی اے کے علاوہ دفعہ 120-153-A اور 124 اے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پولیس نے چند روز قبل 20 فسادیوں کے خلاف بھی چارج شیٹ دائر کی ہے۔ پولیس نے اس خبر کو بڑی اہمیت کے ساتھ جاری کیا ہے اور صاف طور پر بتایا ہے کہ دو حقیقی بھائیوں ہاشم علی اور عامر علی کے قتل کے الزام میں اس نے 20 فسادیوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کردی ہے لیکن پولیس نے مذکورہ 20 گرفتار فسادیوں کے خلاف جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس میں دنگا، آگ زنی اور قتل کی دفعات نہیں لگائی گئی ہیں۔ گویا عملاً متاثرین کو ہی فساد شروع کرنے کا ذمہ دار مان لیا گیا ہے اور غیر جانبدار نظر آنے کےلیے دو مسلم نوجوانوں کے قتل کے الزام میں جن 20 ہندوؤں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کو بالواسطہ طورپر محض جوابی اور دفاعی حملہ کا قصوروار گردانا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ہندی روزنامہ میں شائع اودھیش کمار کی رپورٹ کے مطابق اب تک تقریبا 2650 لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں، ان میں ہندو صرف 550 ہیں جبکہ باقی 2100 مسلمان ہیں۔ یہ سب اس وقت جیل میں ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے CAA کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں نمایاں طور پر حصہ لیا تھا لیکن انہیں بھی فسادات سے جوڑ دیا گیا ہے۔
مولانا مدنی نے پولیس کی یکطرفہ چارج شیٹ پر کہاکہ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فردجرم میں پولیس نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس نے تین دنوں تک جاری رہنے والے ان فسادات کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کئے تھے اور موقع واردات سے کتنے فسادیوں کوحراست میں لیا گیا تھا۔ خود وزارت داخلہ کی طرف سے پارلیمنٹ میں بیان دیا گیا تھا کہ 300 لوگ قتل و غارت گری کرنے پڑوسی ریاست اترپردیش سے یہاں آئے تھے۔ پولیس نے ان لوگوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر واقعی یہ فساد منصوبہ بند تھا اور اس کے لئے باقاعدہ مسلمانوں کی طرف سے سازش رچی گئی تھی تو پولیس کا خفیہ محکمہ اس سازش کا قبل ازوقت پتہ لگانے میں ناکام کیوں رہا؟
مولانا نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا فساد تھا جس کی باقاعدہ تیاری دہلی کے صوبائی الیکشن سے پہلے ہی سے کی جارہی تھی، ان لوگوں کی پوری کوشش یہی تھی کہ فرقہ وارانہ ایجنڈے پر چل کر صوبائی حکومت کے کاموں کو ملیامیٹ کردیں۔ اسی لیے ملک کی وزارت داخلہ سے لے کر کپل مشرا تک سبھی ایک ہی زبان بول رہے تھے۔ جو اصل مجرم ہیں، انھیں ارباب سیاست کا تحفظ حاصل ہے اور جو قطعی بے قصور ہیں انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
انہوں نے اخیر میں کہا کہ مذکورہ تمام مقدمات کی پیروی کے لیے دہلی حکومت نے جو وکیل مقرر کئے ہیں ان کے نام تشار مہتا، امن لیکھی اور منندر سنگھ ہیں یہ مقدمات دہلی کی ذیلی عدالتوں میں میں چلیں گے لیکن ان میں متاثرین کی پیروی تشار مہتا جیسے سینئر وکیل کریں گے۔ تشار مہتا صرف سینئر وکیل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ اس وقت مرکزی حکومت کے سالیسٹر جنرل ہیں جو سپریم کورٹ میں حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دوسرے دو وکیل امن لیکھی اور منندر سنگھ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ہیں۔ امن لیکھی، بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ میناکشی لیکھی کے شوہر ہیں، میناکشی لیکھی پارلیمنٹ میں کپل مشرا کی حمایت کرچکی ہیں۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تینوں حکومت کے سینئر وکلا متاثرین کی کیا پیروی کریں گے، کیا ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ فساد زدگان کو انصاف دلوائیں گے؟۔ تشار مہتا کے بارے میں اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ 2002 کے گجرات فسادات میں انہوں نے مقامی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ میں فسادات کے ملزموں کی نمائندگی کی تھی ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے تشار مہتا کو فسادات کے مقدمات کی پیروی کےلیے سرکاری وکیل کیوں مقرر کیا؟