اردو

urdu

ETV Bharat / state

Swati Maliwal Interview منی پور میں سب سے پہلے وزیراعلیٰ کا استعفیٰ لے کر صدر راج نافذ کرنا چاہیے: سواتی مالیوال

دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے منی پور کے حالات اور دارالحکومت دہلی میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت کی۔ سواتی مالیوال نے حالیہ دنوں میں منی پور کا دورہ بھی کیا تھا۔

DCW Chairperson Swati Maliwal
ڈی سی ڈبلیو کی چیئرپرسن سواتی مالیوال سے خصوصی بات چیت

By

Published : Aug 4, 2023, 6:01 PM IST

ڈی سی ڈبلیو کی چیئرپرسن سواتی مالیوال سے خصوصی بات چیت

نئی دہلی: نربھیا واقعے کے بعد ملک میں خواتین کی حفاظت ایک بڑا مسئلہ ابھی بھی بنا ہوا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ نربھیا واقعہ کے 10 سال بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔ خواتین کو محفوظ بنانے کے لیے بہت سے اقدامات تو کیے گئے لیکن زمینی سطح پر کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ اسی دوران منی پور میں خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کرانے کو بھی ویوڈو وائرل ہوگیا جس نے پورے ملک کو شرمندہ کردیا۔ دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال بھی اپنی ٹیم کے ساتھ منی پور کا دورہ کیا۔ ای ٹی وی بھارت کی نمائندہ نے ان تمام چیزوں کے حوالے سے ڈی سی ڈبلیو کی چیئرپرسن سواتی مالیوال سے خصوصی بات چیت کی ہے۔

سوال: آپ نے حال ہی میں منی پور کا دورہ کرنے کے بعد صدر مملکت کو ایک خط بھی لکھا ہے، آپ کا مطالبہ کیا ہے اور ان سے توقع کیا ہے؟

سواتی مالیوال: منی پور کی حالت اتنی زیادہ خراب ہے کہ سب سے پہلے وہاں کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کا استعفیٰ لیا جائے اور ریاست میں صدر راج نافذ کیا جائے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی کابینہ کے وزراء کو منی پور بھیجنا چاہیے تاکہ خوفناک صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔ منی پور میں خواتین کے خلاف جاری تشدد اور جنسی حملوں کی وجوہات جاننے کے لیے سپریم کورٹ کے ایک تجربہ کار ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جانی چاہیے اور منی پور میں تشدد کے متاثرین کے لیے فوری طور پر ہیلپ لائن نمبر جاری کیا جانا چاہیے۔

سوال: دارالحکومت دہلی میں خواتین کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟ نربھیا واقعہ کے بعد حکومت کے کئی وعدوں کے باوجود خواتین محفوظ نہیں ہیں، اس کے کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

سواتی مالیوال: نربھیا واقعے کو 10 سال گزر چکے ہیں، اس وقت کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اب نربھیا جیسے واقعات کو دوبارہ نہیں ہونے دیا جائے گا، لیکن آج بھی عصمت دری کی خبریں اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں۔ صرف متاثرہ خواتین یا لڑکیوں کے نام بدل جاتے ہیں جرم نہیں بدلتا ہے۔ دارالحکومت میں حالات اب بھی ویسے ہی ہیں۔ میں ڈی سی ڈبلیو کی چیئرپرسن کا عہدہ سنبھلاتے ہی کئی بار مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دہلی پولیس کا احتساب ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ دہلی پولیس براہ راست مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو رپورٹ کرتی ہے۔ دارالحکومت میں خواتین کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب اسے روکنے کے لیے ایک بھی میٹنگ نہیں کی جاتی۔ خواتین سے متعلق پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جانی چاہیے۔

سوال: آپ اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کی بار کر رہی ہیں تو پھر اس کمیٹی میں کس کو شامل کیا جانا چاہیے؟

سواتی مالیوال: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ، وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور دہلی خواتین کمیشن کو اس کمیٹی میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ دارالحکومت میں خواتین کے مسائل پر تفصیل سے بات کی جا سکے۔ خواتین سے متعلق مسائل پر مہینے میں ایک بار بحث ضرور ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

سوال: دہلی میں خواتین کی حفاظت کے حوالے سے ڈی سی ڈبلیو کا کیا منصوبہ ہے؟

سواتی مالیوال: دہلی خواتین کمیشن خواتین کی حفاظت کے لیے دن و رات 24 گھنٹے کام کر رہا ہے۔ کمیشن کی جانب سے جاری کردہ خواتین کے لیے ہیلپ لائن نمبر 181 پر روزانہ 2000 سے 4000 کالز موصول ہوتی ہیں۔ اور کمیشن ہر ایسی خاتون سے ملاقات کرتی ہے جو پریشان ہوتی ہے۔ 6 سالوں میں خواتین کمیشن نے 1 لاکھ سے زائد مسائل کی سماعت کی۔جب کہ اس سے قبل جو ڈی سی ڈبلیو کی چیئرپرسن تھیں، انہوں نے 8 سال میں ایک کیس کی سماعت کی تھی۔ لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ مسلسل کوششوں کے بعد بھی دہلی میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔

سوال: ڈی سی ڈبلیو کی کوششوں کے بعد بھی خواتین محفوظ نہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے؟

سواتی مالیوال: اس وقت دہلی کو ریپ کیپٹل کہا جا رہا ہے۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے۔ اس کے لیے میں براہ راست مرکزی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتی ہوں۔ 8 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی تو میں نے 10 دن کے لیے انشن پر بیٹھ گئی۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے قانون بھی بنا یا کہ چھوٹی بچیوں کے ریپ کرنے والوں کو پھانسی دی جائے گی لیکن مجھے ڈیڑھ سال بعد دوبارہ بھوک ہڑتال پر بیٹھنا پڑا کیونکہ قانون تو بنا دیا گیا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

سوال: خواتین کمیشن میں کس قسم کے کیسز زیادہ آتے ہیں؟

سواتی مالیوال: گھریلو تشدد کے تقریباً 60 سے 70 فیصد کیسز کمیشن میں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ عصمت دری، جنسی تشدد، سائبر تشدد، دھوکہ دہی وغیرہ کے معاملات بھی سامنے آتے ہیں۔ کمیشن نے ہزاروں لڑکیوں کو جنسی اسمگلروں سے محفوظ رکھا ہے۔گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات بھی ہیں۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ڈی سی ڈبلیو مسلسل کام کر رہی ہے، لیکن مرکزی حکومت کب جاگے گی؟

ABOUT THE AUTHOR

...view details