دارالحکومت دہلی کی ساکیت کورٹ میں ہری شنکر جین کی جانب سے ایک عرضی داخل کی گئی ہے ، جس میں قطب کمپلیکس کے احاطہ میں واقع مسجد قوت الاسلام کا مالکانہ حق کا دعویٰ کیا ہے ۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس مسجد کو 27 ہندو اور جین مندروں کو مسمار کرنے کے بعد تعمیر کیا گیا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس پورے ثبوت موجود ہیں، لہذا اس مسجد کے لیے توڑے گئے مندروں کو دوبارہ تعمیر کیا جائے اور وہاں 27 دیوی دیوتاؤں کی عبادت کا حق دیا جائے۔
واضح رہے کہ ہری شنکر جین نے ہی پہلے متھرا کی عید گاہ پرعرضی داخل کی تھی جسے خارج کر دیا گیا تھا تاہم بعد میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ ابھی وہاں معاملہ زیر سماعت ہے۔
قوت الاسلام مسجد پر ہندو مالکانہ حق کا دعویٰ کمزور ترین وکیل ہری شنکر جین کی طرف سے داخل کردہ اس عرضی پر دہلی کی ساکیت عدالت نے منگل کے روز تقریباً ایک گھنٹہ تک سماعت کی۔ عدالت نے اس معاملہ کی آئندہ سماعت 24 دسمبر کو طے کر دی ہے۔
عدالت میں اپنی عرضی کو پیش کرتے ہوئے عرضی گزار نے کہا کہ 'محمد غوری کے غلام قطب الدین نے دہلی میں قدم رکھتے ہی ان 27 مندروں کو توڑنے کا حکم دیا۔ جلد بازی میں مندروں کو توڑ کر اس کے باقیات سے مسجد بنا دی گئی، پھر اس مسجد کو قوت الاسلام نام دے دیا گیا۔
اس کی تعمیر کا مقصد عبادت سے زیادہ مقامی ہندوؤں اور جین طبقہ کے لوگوں کے جذبات کو مجروح کرنا اور اسلام کی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ تاہم اس سلسلہ میں ''ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے دہلی ہائی کورٹ کے وکیل مسرور صدیقی سے بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ مسجد آثارِ قدیمہ کے زیر انتظام ہے اور اس پر پہلے ہی ایک قانون بنایا جا چکا ہے کہ سنہ 1947 کی 15 اگست میں کسی بھی مذہبی مقام پر جو عبادت کی جا رہی ہے اسے ویسا ہی رکھا جائے گا۔
مسرور صدیقی نے کہا کہ ان لوگوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگوں میں ہندو مسلم کرکے عوام کے درمیان تنازع پیدا کر سکیں جس سے شہرت اور نام و نمود حاصل کی جائے لیکن ایڈووکیٹ مسرور صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ بھی ایک سے دو تاریخوں میں ہی خارج کردیا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ عرضی گزار کا کہنا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر 1192 میں ہوئی لیکن مسلمانوں نے یہاں کبھی نماز ادا نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسجد مندر کی باقیات سے تعمیر کی گئی ہے اور اس میں ہندو دیوی دیتاؤں کی مورتیاں لگی تھیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آج بھی ہندو مذہب سے متعلق ان مورتوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ عمارت کے بارے میں پوری معلومات ہونے کے بعد بھی حکومت نے ہندو اور جین طبقہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جبکہ مسلم طبقہ نے اس جگہ کا کبھی مذہبی استعمال نہیں کیا۔ اس کے علاوہ یہ وقف کی ملکیت بھی نہیں ہے اس لیے ان کا کوئی دعوی نہیں بنتا۔
یہ بھی پڑھیں: قطب مینار احاطہ میں واقع قوۃ الاسلام مسجد بھی تنازع کا شکار
فی الحال یہ جگہ حکومت کے قبضہ میں ہے۔ عرضی گزار نے مطالبہ کیا ہے کہ اس مسجد کو 27 مندروں کی از سر نو تعمیر کے لیے ہندو طبقہ کو اس کا مالکانہ حق دیا جانا چاہیے۔