اردو

urdu

ETV Bharat / state

'بی جے پی شاہین باغ کے مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کی سازش کر رہی ہے'

شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ مظاہرے کو جہاں میڈیا کے ایک طبقہ کی طرف سے نشانہ بنایا جارہا ہے وہیں بی جے پی نے بھی اس کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے۔

شاہین باغ مظاہرے
شاہین باغ مظاہرے

By

Published : Jan 25, 2020, 8:11 PM IST

Updated : Feb 18, 2020, 9:52 AM IST

جس میں بی جے پی کا دشا ہین (بے سمت) باغ کہنا اور دہلی کے شاہین باغ میں ملک مخالف سازش رچی جانے والی بات شامل ہے۔

اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شاہین باغ کی خاتون مظاہرین نے کہا کہ بی جے پی یہ سازش رہی ہے کہ شاہین باغ خواتین مظاہرہ کو بدنام کرکے اسے سبوتاژ کیا جائے اور اس بہانے ملک میں جاری ہندو مسلم اتحاد، مشترکہ تہذیب و ثقافت اور مشترکہ اقدار کوختم کرنا ہے جو شاہین باغ خواتین مظاہرے کی وجہ سے ملک میں نظر آرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی اس سے پہلے شاہین باغ خاتون مظاہرین پر پیسے لیکر مظاہرہ کرنے کا گھناؤنا الزام لگا چکی ہے جس پر اسے ہتک عزت کا نوٹس بھیجا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کی وجہ سے ملک میں سو سے زائد مقامات پر صرف خواتین کا مظاہرہ جاری ہے اور ہر روز اس میں دسیوں مقامات کا اضافہ ہورہا ہے۔ یہ تحریک پورے ملک میں پھیل چکی ہے اور ضلعی سطح سے لے کر اب قصبوں اور گاؤں تک پھیل چکی ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی پوری طرح بوکھلا گئی ہے اور وہ اپنے پرانے طریقے سے جھوٹی افواہ پھیلانا، ملک کے خلاف نعرے لگانا جیسے پرانے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ شاہین حب الوطنی کی مثال پیش کر رہا ہے اور صبح شروعات قومی ترانہ جن من گن سے ہوتی ہے اور حب الوطنی اور انقلابی نعرے لگائے جاتے ہیں۔

پیپلز آف ہوپ کے چیرمین اور سماجی کارکن رضوان احمد نے کہا کہ شاہین باغ مظاہرے کی علامت بن چکا ہے اور یہ گنگا جمنی تہذیب کی مثال بن چکا ہے یہاں ہون بھی ہوتا ہے، قرآن کی تلاوت بھی، سکھ کیرتن ارداس بھی کرتے ہیں اور عیسائی بائبل بھی پڑھتے ہیں۔ یہاں خطاب کرنے والوں میں ہندو مسلم، سکھ عیسائی اور تمام طبقے کے لوگ شامل ہیں جو یہاں آکر اس قانون کی مخالفت کرتے ہیں۔

انہوں نے دعوی کیا کہ بی جے پی والے فرضی ویڈیو بنواکر وائرل کرواتے ہیں اور پھر اس ویڈیوں کی بنیاد پر بیان دیکر شاہین باغ کو بدنام کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ویڈیو کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'بھارت کی آزادی کو ختم کرنے کے لیے شاہین باغ میں سازش رچی جا رہی ہے ہمارے پاس اس کے پختہ ثبوت ہیں'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'اس ویڈیو میں ایک مقرر لوگوں سے آسام کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ توڑنے کی اپیل کر رہا ہے'۔

مشہور سماجی کارکن تیستا سیتلواد نے عورتوں کے حوصلے کو سلام کرتے ہوئے کہا کہ خواتین نے پورے ملک میں اس قانون کے خلاف مورچہ سنبھال رکھا ہے اور حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں'۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی مبینہ زیادتی کے بعد 15دسمبر سے جاری مظاہرہ آج بھی جاری ہے اور یہاں بھی 24 گھنٹے کا دھرنا جاری ہے۔ اس کے علاوہ دہلی میں خواتین مظاہرین کا دائرہ پھیل گیا ہے اور دہلی میں درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی اس وقت دہلی میں سیلم پور، جعفرآباد، ترکمان گیٹ،بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مالویہ نگر کے حوض رانی، مصطفی آباد، کردم پوری، شاشتری پارک اور جامع مسجد سمیت ملک بھر میں تقریباً سو سے زائد مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔

دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور یہاں شدت سے قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف بہار کی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور وہاں ہر روز نئی جگہ جڑ رہی ہے اور بہار درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔

مغربی بنگال میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے سلسلے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے یہی وجہ سے یہاں نہ صرف مسلمانوں بلکہ وزیر اعلی ممتا بنرجی جگہ جگہ مظاہرہ کی قیادت کر رہی ہیں۔ مغربی بنگال کے متعدد مقامات سمیت کولکاتہ کے پارک سرکس میں خواتین سخت پریشانیوں کے باوجود اپنا مظاہرہ جاری رکھا۔

اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد کی خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا تھا جہاں آج بھی مظاہرہ جاری ہے۔

انیس دسمبر کو احتجاج کے بعد تشدد کی وجہ سے اترپردیش میں احتجاج پوری طرح سے بند تھا اور 160 سے زائد خواتین پر ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود بھی آج ہزاروں کی تعداد میں خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔اس مظاہرے میں بڑی تعداد میں غیر مسلم خواتین بھی شریک ہورہے ہیں۔

ان مظاہرے کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے پس پشت نہ کوئی پارٹی ہے اور نہ ہی کوئی بڑی تنظیم، جو کچھ بھی آتا ہے وہ رضا کارانہ طور پر آتا ہے اور عام لوگ ضروری چیزیں خواتین کو پہنچاتے ہیں۔

Last Updated : Feb 18, 2020, 9:52 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details