سماجی اعتبار سے ایسے لوگوں کا تقریباً بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ پھر ایسے لوگ اپنے اہل خانہ اور سماج سے کٹ کر ایک الگ دنیا میں زندگی گزارنے لگتے ہیں، جن کے جینے کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔
ذہنی طور پر معذوروں کو کوئی پرسان حال نہیں یہ لوگ ہر آنے جانے والوں کے مختلف اقسام کے تبصرے، کمنٹ اور مزاق کا شکار ہوتے ہیں۔
لوگ انہیں حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بہار کے ضلع ارریہ میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے جن کا پرسان حال کوئی نہیں۔ ایسے لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری تنظیموں کی مدد بھی نہیں ہوتی اور نہ سماج کا باشعور طبقہ ایسے افراد کی بہتری کے لیے کوئی قدم اٹھاتا ہےکہ یہ لوگ تندرست ہو کر عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 45 کروڑ لوگ ذہنی طور پر معذور ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تر سڑکوں اور چوراہوں پر لاوارث گھومتے پھرے نظر آتے ہیں۔
ان میں بیشتر افرراد ایسے ہیں جو اپنی یاد داشت کھو چکے ہیں اور اپنے گھر یا رشتہ داروں کا پتہ بتانے کے قابل نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہزار افراد میں 200 ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طرح ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہیں، مگر ایسے لوگوں کی حفاظت کی جائے اور مناسب علاج و معالجہ کیا جائے تو وہ ٹھیک ہو سکتے ہیں۔
ارریہ میں ایسے لوگوں کے علاج کے لیے نہ تو کوئی ہسپتال ہے اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں مقامی کے علاوہ باہر سے آنے والے معذوروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ارریہ میں اب تک ایسے کتنے لوگ ہیں اس سلسلے میں جب محکمہ برائے سماجی تحفظ کے افسران سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ان کے پاس کوئی اعدادوشمار نہیں ہے۔
حالانکہ بھارتی آئین میں ایسے مخصوص لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے قوانین موجود ہیں جس کے تحت ایسے افراد کی پولس انتظامیہ کی نگرانی اور انہیں کسی محفوظ مقام تک پہنچانے کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے جہاں کسی دوسرے افراد کو نقصان کا خطرہ نہ رہے۔
تاہم ارریہ میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا جو باعثِ تشویش ہو۔
سوال یہ ہے کہ آخر سماج کے اس بے یار و مددگار طبقے کی دیکھ ریکھ کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ سرکاری محکمہ اور غیر سرکاری تنظیموں نے اس سمت میں کوئی قدم نہیں بڑھایا تو حالات مزید ابتر ہوتے چلے جائیں گے۔