بہار کے سیوان کے سابق رکن پارلیمان اور راشٹریہ جنتا دل کے سینئر رہنما شہاب الدین مرحوم کی موت کا معاملہ معمہ بن کر رہ گیا ہے، دن دیال اپادھیائی ہسپتال اور تہاڑ جیل کے انتظامیہ نے دعوی کیا ہے کہ شہاب الدین کی موت کورونا سے ہوئی ہے جبکہ کورونا کی رپورٹ جو انتقال سے دو دن قبل نمونہ لیا گیا تھا وہ رپورٹ بتاتی ہے کہ شہاب الدین کی کورونا ٹیسٹ رپورٹ نگیٹیو ہے۔اب ایسے میں سوال اٹھنا لازمی ہے۔
شہاب الدین کا بیٹا اسامہ شہاب اور رشتے دار، دوست و احباب مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں کہ شہاب الدین کی موت مشکوک حالت میں ہوئی ہے۔
کسی سازش کا خدشہ اسامہ اور رشتہ داروں نے ظاہر کیا ہے،گھر والوں کی بے چینی اور خدشات یقین بدلتے اس لئے بھی جارہے ہیں کیونکہ میت اہل خانہ سپرد نہیں کی جارہی ہے۔
شہاب الدین کی موت ہوئے تین دن گزر گئے ہیں تاہم ان کی تجہیز وتکفین نہیں ہوئی ہے، مجسٹریٹ کی ہدایت کے باوجود ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا ہے۔
بہار سے لیکر دہلی حکومت تک سے رشتے داروں نے میت سپرد کرنے کی اجازت مانگی ہے تاہم اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب معاملے نے طول پکڑ لیا ہے۔ بہار میں جہاں عام افراد شہاب الدین کی موت کو مشکوک بتاتے ہوئے سازش قرار دے رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت اس کی جانچ کریں۔
وہیں اب اس معاملے میں بہار کی سیاست بھی گرمائی ہوئی ہے، بہار حکومت میں شامل بھارتی عوام مورچہ سیکولر کے قومی صدر وسابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی نے بھی شہاب الدین کی موت اور ابھی تک پیش آئے حالات پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
جیتن رام مانجھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی وزیر داخلہ امیت شاہ، دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار سے اپیل کی ہے کہ سابق رکن پارلیمنٹ شہاب الدین مرحوم کی موت کی عدالتی جانچ ہو اور ان کی تجہیز و تکفین ریاستی اعزاز کے ساتھ کیا جائے۔
مانجھی کے علاوہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی اور ان کی کی پارٹی کے بہار کے سبھی ارکان اسمبلی نے بھی شہاب الدین مرحوم کی موت اور تجہیز و تکفین معاملے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اویسی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ شہاب الدین صاحب کے گھر والے ان کی تکفین سیوان بہار میں کرنا چاہتے ہیں لیکن افسران اس کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اور ان کی میت کو گھر کے حوالے بھی نہیں کر رہے ہیں۔
شہاب الدین صاحب کا ٹھیک سے علاج نہیں ہوا تھا انہیں ایک کووڈ19 مریض کے ساتھ رکھا گیا، اویسی اپنے دوسرے ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ کم سے کم غمزدہ گھر والوں کو ان کے آخری رسومات ان کے حساب سے کرنے سے تو نہیں روکا جانا چاہیے۔
ظاہر سی بات ہے کہ وہ کورونا کی ساری ہدایت پر عمل کریں گے، مجلسِ اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر ورکن اسمبلی اخترالایمان نے بھی شہاب الدین کی میت بہار لانے کی مانگ نتیش کمار سے کی ہے۔
اخترالایمان نے کہا کہ کورونا پروٹوکول میں بھی کئی کی میت ایک ریاست سے دوسری ریاست کو گئی ہے تو پھر شہاب الدین کے امتیازی سلوک کیوں؟
وزیر اعلیٰ نتیش کمار موت کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ہیں۔
ادھر راشٹریہ جنتا دل کے سینئر رہنما ورکن اسمبلی وسابق وزیر ڈاکٹر سریندر پرساد یادو تو باضابطہ ایک پرچہ بھی چھپوایا ہے جسکی سرخی ہے 'شہاب الدین صاحب کی موت نہیں بلکہ مرڈر ہوا' سریندر یادو سوال کھڑے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تہاڑ جیل میں ہی بند غدار وطن چھوٹا راجن کو علاج کے لئے ایمس اور دو بار کے کے ایم ایل اے اور چار بار کے رکن پارلیمنٹ رہے جناب محمد شہاب الدین صاحب کو علاج کے لیے بدحال حالت والے ڈی ڈی یو ہسپتال میں کیوں بھیجا گیا؟
شہاب الدین اگر کورونا منفی تھے تو کس بیماری کا علاج کیا جارہا تھا، کورونا کا حوالہ کیوں دیا گیا، موت کی وجہ سامنے آنی چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 21 اپریل کو شہاب الدین کو تہاڑ جیل سے دن دیال اپادھیائی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، 23 اپریل کو شہاب الدین کی ملاقات بیٹے اسامہ سے ہوئی۔
اس کے بعد خبر آئی کہ شہاب الدین کورونا مثبت پائے گئے ہیں، علاج تشفی بخش نہیں ہونے اور گھروالوں سے ملاقات اور بات پر پابندی کو لیکر بیٹا اوسامہ نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی جس پر شنوائی ہوئی اور عدالت نے ہدایت دی کہ شہاب الدین کو بہتر علاج کے لیے ایمس میں بھرتی کرایا جائے اور ساتھ ہی گھر والوں سے دن میں دوبار بات کرائی جائے لیکن عدالت کی ہدایت پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا۔
29 اپریل کی رات خبر آتی ہے کہ شہاب الدین کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی انہیں آکسیجن پر رکھا گیا جبکہ 30 تاریخ کو وینٹیلیٹر پر ہونے کی خبر دی جاتی ہے۔
اس دوران بیٹا اسامہ مسلسل یہ آواز اٹھارہاتھا کہ جب ان کے والد کی زیادہ طبیعت خراب ہے تو ایمس میں کیوں نہیں داخل کرایا جاتا، ان کا آکسیجن لیول 95 سے زیادہ ہے تو پھر آکسیجن لگانے کی بات کیوں کی جارہی ہے۔
یکم مئی کو صبح سے خبر پھیلتی ہے کہ شہاب الدین کا انتقال ہوگیا ہے تاہم جیل اور ہسپتال اس کی تصدیق نہیں کر رہا تھا۔ قریب چھ گھنٹے کے بعد اس کی تصدیق کی گئی۔
اس کے بعد بیٹا اسامہ نے مجسٹریٹ کی عدالت میں تہاڑ جیل آئی جی اور ہسپتال ڈائریکٹر کے خلاف مقدمہ چلانے اور والد کا پوسٹ مارٹم کرانے کی اپیل کی جس پر مجسٹریٹ نے شنوائی کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم کی اجازت دی لیکن اس کے باوجود ہسپتال نے پوسٹ مارٹم کرنے سے کووڈ19 پروٹوکول کا حوالہ دیکر انکار کر دیا اور میت گھر والوں کو دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد اتوار کو مجسٹریٹ کے سامنے اسامہ پھر پیش ہوئے اور بیان درج کرایا۔
اس دوران ہسپتال تدفین کی تیاری کررہا تھا تبھی بیٹے اسامہ اور سینکڑوں افراد پہنچ گئے، مجسٹریٹ کی عدالت نے ہدایت جاری کی کہ پیر یعنی آج دوپہر بعد شنوائی کے بعد ہی کوئی فیصلہ تکفین کا ہوگا۔