ممنوع نکسلی تنظیم 'سی پی آئی ماؤ نوازوں' کے اہم سابق رہنما نندا سنگھ پانچ سو بچوں کو مفت تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔
سابق نکسلی نندا سنگھ نے اسی علاقے میں تعلیم کی روشنی پھیلانے کی کوشش کی ہے جہاں وہ سی پی آئی ماؤ نوازوں میں رہ کر بندوق لے کر 'لال آتنک' پھیلانے کے لیے قتل، پولیس پر حملے اور دیگر مجرمانہ واردات کو انجام دینے کا فرمان جاری کرتے تھے۔
آج وہ نکسل متاثرہ علاقے کے مختلف گاؤں میں صبح پانچ بجے سے درخت کے نیچے بیٹھ کر بچوں کو پڑھاتے ہیں۔
ریاست بہار کے ضلع گیا کے نکسل متاثرہ علاقے میں برائی پر اچھائی کی جیت کی یہ تصویر سامنے آئی ہے۔
سی پی آئی ماؤ وادی میں رہ کر کبھی بندوق سے شدت پسندی تو کبھی نکسلزم کو فروغ دینے کی پیروی کرتے ہوئے نوجوانوں کو تشدد کے راستے پر لے جانے والا شخص آج خود عدم تشدد کا علمبردار بن گیا ہے۔
جن ہاتھوں میں بندوق اور زبان پر جمہوریت و قانون کے خلاف نفرت، تشدد، قتل و غارت گری کی باتیں تھیں، آج اسی ہاتھ میں 'قلم، کتاب ہے اور زبان پر مہاتما گاندھی کے پیغام، بھارت کو جوڑنے، جمہوریت کے تحفظ، برائی سے دوری اور سچائی و علم کا پیغام ہے، جسے پہلے بچے بوڑھے جوان سبھی 'لال سلام' کہہ کر خوف میں سلامی پیش کرتے تھے تاہم آج اچھے راستے پر چلنے کی وجہ سے معاشرے کے لوگ انہیں 'پرنام گرو جی' کہہ کر نہ صرف سلام کرتے ہیں بلکہ بچے ان کے پاؤں چھو کر دعا لیتے ہیں اور سبھی انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
نندا سنگھ ضلع گیا کے علاوہ جہان آباد، اورنگ آباد، چترا، سمیت کئی اضلاع میں نندا نکسلی کے نام سے مشہور تھے لیکن وہ اب 'نندا گرو جی' بن گئے ہیں۔
نندا سنگھ ان دنوں گیا کے بارہ چٹی اور ڈوبھی بلاک کے کئی گاؤں کے غریب و بے سہارا بچوں کی تعلیم کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ درختوں کے نیچے بیٹھ کر بچوں کو صبح شام خود پڑھاتے ہیں جبکہ اس کے بدلے وہ بچوں سے کسی بھی طرح کی فیس نہیں لیتے۔
نندا گروجی کی کلاس میں نرسری سے آٹھویں جماعت تک کہ بچے پڑھتے ہیں۔ وہ بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ساتھ ان کے لیے کتاب، نوٹ بک اور قلم وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً وہ بچوں کے لیے اناج اور کھانے کی دوسری اشیا کا بھی نظم کرتے رہتے ہیں۔
نندا سنگھ اُن علاقوں کے بچوں کو پڑھانے کے لیے زور دیتے ہیں جو اقتصادی طور پر کمزور ہیں اور جہاں تعلیم کا معقول نظم نہیں ہے وہ صبح میں گاؤں کے اسکول کُھلنے سے قبل اور اسکول بند ہونے کے بعد اپنی کلاس شروع کرتے ہیں۔
- ایم اے پاس نندا سنگھ کی کہانی
نندا سنگھ گورکھپور یونیورسٹی سے ایم اے پاس ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نکسلزم کی جانب انکا جھکاؤ طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا، انہیں لگتا تھا کہ بندوق کے سہارے نظام کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
وہ مارکس وادیوں کی لکھی کتابیں خوب پڑھتے تھے۔ ذہن اتنا تبدیل ہوگیا تھا کہ وہ ایم اے کرنے کے بعد نکسلی بن گئے، وہ کئی واردات میں ملوث رہے حالانکہ وہ ان باتوں کو اب یاد نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم ان کے مجرمانہ ریکارڈ کی بات کی جائے تو بتایا جاتا ہے کہ سنہ 2004 میں جہان آباد جیل اڑانے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ گیا کا بارہ چٹی کا علاقہ ان کے ماتحت رہا اور وہ اس علاقے میں پولیس اور اثر و رسوخ والے لوگوں پر حملے کی سازش اور پلاننگ میں شامل رہے۔
کہا جاتا ہے کہ بھاکپا ماؤ وادی میں ان کا قد اتنا بڑا تھا کہ ان کی ہدایت کے بغیر ایک کام بھی نہیں ہوسکتا تھا۔