کورونا وائرس نے عام زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ روزگار، صنعت، کاروبار سے لے کر ہر شعبہ اس کی زد میں آیا ہے۔
وہیں تعلیم کی دنیا پر بھی کورونا وائرس کا خاصہ اثر پڑا ہے۔ کورونا وائرس کے بڑھتے انفیکشن کے پیش نظر حکومت اور اسکول انتظامیہ نے آن لائن کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ عمل سبھی بچوں کے لئے آسان نہیں تھا۔
خصوصی رپورٹ: ڈیجیٹل ایجوکیشن خواب یا حقیقت دراصل ریاست بہار کے ضلع پورنیہ میں غریب اور پسماندہ طبقے کے 50 خاندان ایسے ہیں جو بنیادی سہولیات سے کوسوں دور کچی آبادیوں میں رہ رہے ہیں۔ لیکن یہاں رہنے والے خاندان اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھانے کے لئے جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔
دارالحکومت پٹنہ سے 372 کلومیٹر دور پورنیہ کے ضلع صدر دفتر سے متصل پنچ مکھی مندر میں واقع بھنگی ٹولا کے یہ خاندان اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے سخت محنت کر رہے ہیں۔ اس علاقے میں تقریباً 50 سے 60 بھنگی خاندان آباد ہیں، جن کی آبادی تقریباً 350 نفوس پر مشتمل ہے۔
یہاں کے 70 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں۔ ان میں سے 50 فیصد سے زیادہ نجی اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور دیگر بچے سرکاری اسکولوں کے ذریعہ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں کے زیادہ تر لوگ ایڈ ہاک پر بحال کیے گئے صفائی کارکن ہیں۔ یہ سبھی میونسپل ایریا، سرکاری دفتر اور صدر اسپتال میں کام کرتے ہیں۔ انہیں صرف 7-8 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر رکھا گیا ہے۔ یہاں کی کچھ خواتین بھی صفائی ملازمین ہیں۔
کورونا بحران کے دوران بند ہوئے اسکولوں میں حکومت نے آن لائن کلاسز شروع کئے لیکن آن لائن پڑھائی کرنا یہاں کے بچوں کے لئے چیلنجز سے پرُ ہے۔
ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے یہاں کے بچے کرایہ پر موبائل فون لے کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کرایہ پر موبائل فون سننے میں جتنا پریشان کن ہے، یہاں کے رہائشی کے لئے اس کا عمل بھی اتنا ہی دشوار کن ہے۔
موبائل کرایہ پر لینے کے لئے ری چارج کرنے کے لئے بھی انہیں کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ بہتر موبائل اور بہتر رابطے کی کمی کی وجہ سے انہیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دراصل مرمت کے لئے آنے والے بہت سے موبائل جن کو ان کے مالکان واپس نہیں لیتے ہیں، ایسے دکاندار ان بچوں کو کرایے پر موبائل دیتے ہیں۔ لیکن اس کے بدلے انہیں اپنا آدھار کارڈ یا کوئی اور شناختی کارڈ اور کچھ رقم جمع کرنی ہوتی ہے، تب یہ بچے آن لائن کلاسز کا حصہ بن پاتے ہیں۔
تعلیم کسی بھی بچے کا بنیادی حق ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک میں ایک خاص طبقے کے بچوں کو اس بنیادی حق کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف اہل ثروت حضرات کے بچے بغیر کسی پریشانی کے یہ حقوق حاصل کرتے ہیں۔
تاہم پورنیہ میں اس ڈیجیٹل تعلیم کا فائدہ نجی اور سرکاری دونوں اسکولز میں زیر تعلیم بچوں کو دیا جارہا ہے۔
وہیں ضلع کے سرسوتی ودیا مندر اسکول کے پرنسپل بھولا پرساد نے والدین کی کوششوں کو دیکھ کر ایک انوکھی پہل شروع کی ہے۔ دراصل پرنسپل بستی کے بچوں کو واٹس ایپ جیسے ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے ڈیجیٹل کلاس فراہم کررہے ہیں۔ آن لائن مطالعہ کے دوران بچے نوٹس بناتے ہیں۔ پرنسپل موصوف کا کہنا ہے کہ تمام بچے واٹس ایپ سے جڑے ہوئے ہیں۔
بچے کسی بھی ملک کے مستقبل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر بنیاد کمزور ہو تو پھر اس پر بننے والی عمارت مضبوطی سے کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح اگر بچوں کی تعلیم میں کوتاہی برتی جاتی ہے تو پورا ملک اس کا خسارہ اٹھائے گا۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ حکومت ان بچوں کے لئے موثر اقدامات اٹھائے۔