گیا: بہار میں رام نومی کے موقعے پر ہوئے فساد پر پہلی مرتبہ ریاستی حکومت کے کسی وزیر نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر کا تعلق محکمہ کوآپریٹو سے ہے اور وہ آرجے ڈی کے قدآور رہنما ہیں۔ دراصل بہار محکمہ کوآپریٹو کے وزیر ڈاکٹر سریندر پرساد یادو ضلع گیا دورے پر پہنچے جہاں نمائندہ ای ٹی وی بھارت نے ان سے خاص بات چیت کی۔ ڈاکٹر سریندر پرساد یادو نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ جس وقت گیا یا پھر ساسارام اور بہار شریف میں پرتشدد واقعات پیش آئے، اس وقت وہ کٹیہار میں سابق رکن اسمبلی نیرج یادو کی موت کے بعد رسومات میں مصروف تھے۔ اس لیے انہوں نے اس پر بیان نہیں دیا لیکن گزشتہ روز جیسے ہی وہ آئے، انہوں نے اپنے اسمبلی حلقہ بیلاگنج کے چاکند تھانہ حلقہ میں پیش آئے پرتشدد معاملے کو پرسکون کرا دیا۔ اب دونوں فرقوں میں صلح ہوگئی ہے۔ انہوں نے بی جے پی پر الزمات لگاتے ہوئے دعوی کیا کہ ان سب کے پیچھے جو سازش کی گئی ہے اس کے پیچھے بی جے پی ہی ہے حالانکہ انہوں نے حکومت کے بچاؤ میں کہا کہ نظم ونسق میں کوئی کمی نہیں تھی اور سکیورٹی کے پختہ انتظامات کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سکیورٹی میں چوک نہیں ہوئی لیکن ایک چیز یہ کہ جو پہلے سے فسادیوں نے طے کر رکھا تھا، اسے وہ تو انجام دیتے ہی، ہاں یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی فسادی بخشا نہیں جائے گا۔ وہ وزیراعلیٰ سے مطالبہ کریں گے کہ ایسے فسادیوں جنہوں نے جسمانی طور پر تشدد کو انجام دیا یا سازش کی ہے ان سب پر ملک سے غداری کی ایکٹ لگائی جائے اور ان پر سخت کارروائی کی جائے اور ان سے ہی نقصان کی بھرپائی کرائی جائے۔ سریندر یادو نے کہا کہ ہندو مسلمان یہیں کے ہیں تو پھر دنگائی اور فسادی کہاں کے ہیں۔۔؟ اس پر معاشرے کو سوچنا چاہیے۔ انہوں نے گیا میں ہوئے تشدد کی وجہ مقامی پولیس کے غیرذمہ دارانہ کام کو قرار دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امن انصاف قانون کی بالادستی ہی عظیم اتحاد کی حکومت کا مشن اور فریضہ ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے وزیر اعلیٰ سے بات کی اور حکومت کی کاروائی کو درست قرار دیا۔
بی جے پی فساد چاہتی ہے ۔۔
ڈاکٹر سریندر پرساد یادو نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہاکہ ابھی تک کی جانچ میں یہ واضح ہو گیا ہے سازش کے تحت بہار کو جلانے کی کوشش ہوئی ہے اور جن کا نام سامنے آیا ہے ان کا تعلق بی جے پی کی حمایت یافتہ تنظیموں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے اسمبلی حلقہ بیلاگنج کے ڈبو نگر اور ڈھکائن تشدد کا ذکر کیا اور کہا کہ ' راج نیتا ' وہی ہوتا ہے جو معاشرے کے ہر فرد کے دکھ درد کو سمجھے۔ خاص کر اس طرح کے مواقع پر پیدا ہوئی صورتحال کو قابو پانے کیلئے سبھی کو جوڑنے کی باتیں ہونی چاہیے ڈبو اور ڈھکائن گاؤں میں جب تشدد ہوا تو بی جے پی کے بڑے قدآور رہنما جس میں بہار کے سابق وزیر و گیا نگر حلقہ کے رکن ڈاکٹر پریم کمار اور دوسرے رکن اسمبلی اور رہنما ڈھکائن گاوں کا دورہ کیا وہاں جاکر ہندوتوا کی باتیں کی لیکن وہ چند فاصلے پر واقع ڈبو گاؤں نہیں گئے وہاں کے مسلمانوں سے انکی آب بیتی نہیں سنی۔ اسی کو سہولت کی سیاست کہا جاتا ہے اگر آپ انصاف پسند ہونگے تو سبھی متاثرین سے ملیں گے لیکن بی جے پی والے ایسا نہیں کرتے ہیں ہاں اور یہ بات ہے کہ ڈھکائن اور ڈبو گاوں کے ہندو مسلمان بی جے پی کے بہکاوے میں نہیں آئے اور سبھی نے رنجشوں کو بھلا کر صلح کرلی ہے ۔
اویسی سے بڑے لیڈر ان کے والد تھے