تنویر عالم اور محمود حکیمی نے فلم اداکار سوشنانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے معاملے کو ریاستوں کے درمیان انا کا مسئلہ بنانے کو وفاقی ڈھانچے کے لیے عظیم خسارہ قرار دیا۔
انہوں نے بہار کے ڈی جی پی گپتیشور پانڈے کے نام مشترکہ خط میں کہا کہ آپ کوئی بھی بیان دینے سے پہلے ممبئی مہاراشٹر میں رہنے والے بہار سماج کے لوگوں کے بارے میں ضرور سوچ لیں۔
انہوں نے کہاکہ مہاراشٹر میں باشندگان بہار اور پروانچل کا مسئلہ ہمیشہ حساس رہا ہے اور بہار کے کچھ لوگوں کے بے تکے بیان بازی اسے مزید پیچیدہ بنادیتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سوشانت کا مسئلہ ایک خودکشی کا معاملہ ہے لیکن اسے سیاسی اور دو ریاستوں کا مسئلہ بنادیا گیا ہے جس کی وجہ سے وفاقی ڈھانچے کو بہت نقصان پہنچنے کا شدید خدشہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ محض الیکشن کے نظریے اس مسئلہ کوسیاسی رنگ دینا اور اچھالنا یہ ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتا۔انہوں نے بہار کے ڈی جی پی گپتیشور پانڈے کے بیان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ان کے بے تکے بیان سے مہاراشٹر میں مقیم اہل بہار کو کتنی پریشانیاں جھیلنی پڑسکتی ہیں یہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ارجمن مغل کا بالی وڈ کا سفر
انہوں نے کہا کہ بہار سرکار، میڈیا اور آپ نے ایک قتل / خودکشی معاملے کو دو ریاستوں کی عزت کا معاملہ بنادیا ہے جو کہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔ساتھ ہی آپ لوگوں نے اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھا کہ قانون اور انصاف کے بیچ دو ریاستوں کی عوام کے درمیان غلط فہمیاں نہ پیدا ہوجائے، بد قسمتی سے اس پورے معاملے کو سیاسی رنگ دیدیا گیا ہے۔ جب سشانت سنگھ راجپوت کا معاملہ سی بی آئی کے حوالے کیا جا رہا ہے تو براہ مہربانی اس کو اور زیادہ سیاسی رنگ دے کر ممبئی اور مہاراشٹر میں مقیم اہل بہار کے لیے نئی مصیبت کھڑی کرنے کی کوشش نہ کریں۔جس سے مزید علاقائی عصبیت جنم لے،ہم سب چاہتے ہیں کہ سشانت سنگھ راجپوت کو انصاف ملے تاکہ ان کی روح کو سکون ملے اور اہل خانہ کو صبر ملے۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے اپیل کی ہے کہ آپ اپنے عہدیداروں اور رہنماؤں پر لگام لگائیں، ہر کسی کو اپنا کام اپنے دائرہ کار میں رہ کر کرنا چاہیے، عوامی نمائندے پولیس کا کام کریں گے اور پولیس غیر ذمہ دار عوامی نمائندوں جیسے بیان دیں گے؟ کیا اسی طرح دیش سماج اور قانون کا نظم و نسق چلے گا؟آخر میں مسٹر تنویر عالم اور محمود حکیمی نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جب تک پانڈے جی میڈیا کے سامنے نہیں آتے ہیں اس وقت تک ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا بہار فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھلس رہا ہے، لا اینڈ آرڈر بگڑا ہوا ہے، پانڈے جی کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے اپنے بہار کے بگڑتے لا اینڈ آرڈر پر دھیان دیتے، فرقہ وارانہ فسادات پر کنٹرول کرتے لیکن انہوں نے اپنی نااہلی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ایسے معاملے پر بیان بازی شروع کردی جس سے ان کا زیادہ لینا دینا بھی نہیں ہے لیکن پانڈے جی اپنی انتظامی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر سیاسی جماعتوں کی خوشامد میں لگ گئے جو کہ کم از کم اس وقت بہار اور اہل بہار کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔