ملک میں مسلمانوں کی تقدیر اور تصویر بدلنے کے لئے مسلمان اپنے درمیان سے رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ کا انتخاب نہ کریں بلکہ لیڈر بنائیں کیوں کہ رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ پارٹی سے بندھے ہوتے ہیں جب کہ قائد آزاد ہوتا ہے۔ یہ بات آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کے صدر اور رکن اسمبلی اختر الایمان نے یہاں ’ہندوستان میں ذات پات پر مبنی سیاسی نظام میں کمزور طبقات کا استحصال اور اس کا حل‘ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے آج تک صرف رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ ہی منتخب کرتے آئے ہیں۔ کسی ایسے فرد کو قائد نہیں بنایا جو ان کے مسائل کو صحیح جگہ اٹھاسکیں، ان کو حل کرواسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے صرف حکومت بنانے کے لئے ووٹ دیا ہے اپنے مسائل کو حل کرانے کے لئے نہیں ووٹ دیا۔ اس لئے یہاں کی سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں سے تعلقات ووٹ لینے کی حد تک ہی رکھا۔ کیوں کہ مسلمانوں کا حکومت میں ہونا اور مسئلہ کا حل دونوں الگ بات ہے۔
انہوں نے لیڈر شپ اور قیادت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ بہار میں اگر یادو سماج کا بول بالا ہے اور ہر شعبے میں یادو نظر آتے ہیں تو اس کا سہرا لالو پرساد یادو کے سر جاتا ہے۔ کیوں کہ یادو سماج نے اپنے اندر سے قائد پیدا کیا جس نے یادو کے لئے کام کیا۔ اسی طرح کانشی رام اور محترمہ مایاوتی نے دلت سماج کو اٹھانے کا کام کیا کیوں کہ دلتوں نے انہیں اپنا قائد تسلیم کیا اور ان کی آواز پر لبیک کہا۔
اختر الایمان نے کہاکہ 'مسلمانوں کو سیاسی استحصال روکنے کے لئے سیاسی طور پر ہی لڑنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سیاسی طور پر متحد اور منظم ہونا ہوگا ورنہ مسلمان ہمیشہ کی طرح ووٹ بینک کی طرح ہی استعمال کئے جائیں گے اور پھر دودھ سے مکھی کی طرح پھینک دئے جائیں گے'۔
انہوں نے کہاکہ آزادی کے بعد بھی سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کی حصہ داری 20 فیصد سے زائد تھی لیکن آج تین چار فیصد سے زائد نہیں ہے۔ جب کہ ایس سی، ایس ٹی اور پسماندہ طبقات کی ملازمت میں بہت اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ان کے یہاں لیڈر شپ ہے۔ لیڈر شپ ہی حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اور متعلقہ پلیٹ فارم پر اواز اٹھاتی ہے۔