اردو

urdu

ETV Bharat / state

ووٹرز کو بیدار کرنے والا سماجی کارکنان کا قافلہ بھاگلپور پہنچا

بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک مانا جاتا ہے لیکن کیا واقعی ملک میں جمہوریت باقی ہے اور عوام اپنی پسند کے امیدوار کو اپنا نمائنددہ منتخب کر پاتی ہے اگر ایمانداری سے اس سوال کا جواب تلاش کریں گے تو شاید جواب نفی میں ملےگا۔

ووٹرون کو بیدار کرنے والا سماجی کارکنان کا قافلہ بھاگلپور پہنچا
ووٹرون کو بیدار کرنے والا سماجی کارکنان کا قافلہ بھاگلپور پہنچا

By

Published : Nov 2, 2020, 12:11 PM IST

یہ ماننا ہے راشٹریہ سیوا دل اور اس سے جڑی سماجی تنظیموں کا ان کے مطابق موجودہ وقت میں جمہوریت پیسہ اور طاقت کا غلام بن گئی ہے لہذا ان حالات میں سماجی تنظیموں کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور اسی کوشش کے تحت ان لوگوں نے ریاست بہار میں چل رہے اسمبلی انتخابات کے درمیان ووٹوں کے صحیح استعمال کیلئے لوگوں کو بیدار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور عوام کو روزگار، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی حقوق کے اشو کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا نمائندہ منتخب کرنے کی بیداری مہم چلا رہے ہیں۔

ووٹرون کو بیدار کرنے والا سماجی کارکنان کا قافلہ بھاگلپور پہنچا

ان لوگوں نے ریاست بہار کے بھاگلپور شہر میں ایک پریس کانفرنس کر کے اپنا مقصد واضح کیا: شاہد کمال؛ سماجی کارکن، اودے جی؛ ڈائریکٹر پیس پریدھی، بھاگلپور۔

سماجی تنظیموں کی طرف سے ووٹروں کو بیدار کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے ان میں بہار نو نرمان یوا ابھیان، بہار ومرش، راشٹر سیوا دل، بہار اسٹیٹ گاندھی سمارک ندھی، جن آندولنوں کا راشٹری سمنوے، یوا سنواد، کوشی نو نرمان منچ، ہند کھیت مزدور پنچائت، بہار شکسا آندولن سنیوجن سمیتی، بہار سرودے منڈل شامل ہیں۔

ان کے نمائندے ان دنوں پورے بہار کا دورہ کر رہے ہیں اور لوگوں میں یہ پیغام عام کر رہے ہیں کے انہیں کس طرح کی حکومت منتخب کرنی چاہئے۔

پریس کانفرنس کے موقع پر مقررین نے ملک کے موجودہ سیاسی حالات پر افسردگی ظاہر کرنے کے ساتھ ہی اس بات پر خوشی بھی جتائی کہ بہار کے موجودہ اسمبلی انتخاب میں بے روزگاری، ترقی، اور مہاجر مزدوروں کو ہوئی پریشانی انتخابی اشو بنا ہے اور ذات پات اور مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو دھکا لگا ہے۔

اس موقع پر رام منوہر لوہیا اور جئے پرکاش کے ساتھ آندولن میں شریک رہے سماجی کارکن شیام سرن، پریدھی پیس سنٹر کے ڈائریکٹر اودے جی اور معروف سماجی کارکن شاہد کمال کے علاوہ کئی دیگر تنظیموں کے کارکن موجود تھے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details