انہوں نے کہا کہ جس طرح سے لداخ اور دیگر دور دراز خطوں کے عملے کے لیے ٹرانسفر پالیسی موجود ہے اسی طرز پر ان کے کے لیے بھی ٹرانسفر پالیسی وضع کی جائے-
این ایچ ایم سے وابستہ طبی و نیم طبی کا مستقلی کا مطالبہ نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت اس وقت گریز میں کافی تعداد میں مختلف طبی مراکز میں ڈاکٹر و پیرامیڈکل عملہ پچھلے پانچ سے سات سالوں سے اپنے گھروں سے دور ہیں اور وہاں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں-
کئی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گریز وادی چونکہ کافی دور ہے اور وہاں بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے تو اس وجہ سے کام کررہے ڈاکٹر و پیرا میڈکس کو خود بھی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ وہ مشکلات کے باوجود اپنے فرائض بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں-
ان کا کہنا ہے کہ وہ کافی وقت سے سرکار سے ان کی مستقلی کو لیکر مانگ کررہے ہیں تاہم ابھی تک انہیں مستقل نہیں کیا گیا ہے- اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں لداخ طرز پر ٹرانسفر پالیسی کے تحت شامل کیا جائے اور گھروں سے سالوں سے دور دراز علاقوں میں کام کرنے کے عوض انہیں انسنٹیوز فراہم کئے جائیں تاکہ وہ بھی راحت محسوس کرسکے-
داور گریز ہسپتال میں کام کررہے امتیاز احمد نامی ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ گزشتہ سات سالوں سے گریز میں کام کررہے ہیں لیکن وہاں انہیں کافی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑگیا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں ابھی تک مستقل نہیں کیا گیا ہے- ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ مطالبہ این ایچ ایم سے جڑے تمام ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے جو کافی سالوں سے التوا میں پڑا ہے-
اس کے علاوہ گریز میں کام کررہے درجنوں ایسے پیرا میڈکس بھی کافی کم تنخواہوں پر وہاں کام کرتے ہیں - انہوں نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ انہیں مستقل کرکے ان کی دیرینہ مانگ پوری کی جائے -