عرفانہ نے چند برس قبل ایک گروپ کو تشکیل دیا تھا اور اب یہ ایک مکمل صوفیانہ گروپ کے نام سے معروف ہورہا ہے۔
صوفیانہ موسیقی کے ابھرتی فنکارائیں اس دور میں اگرچہ اکثر ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ بیشتر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مغربی اور جدید طرز کی موسیقی میں دلچسپی لیتی ہیں لیکن صوفیانہ گروپ میں شامل ان لڑکیوں کا اس ٹرینڈ سے ہٹ کر روایتی صوفی موسیقی میں دلچسپی لینا اور پھر اس کی تجدید اور تحفظ کے خواب دیکھنا ایک انوکھی بات ہے۔
عرفانہ اس گروپ کی سربراہ ہیں، وہ جب چھ سال پہلے آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں انہوں نے اپنے والد سے کہا تھا کہ وہ اسے صوفی موسیقی سکھائیں، ان کے والد محمد یوسف اس پر راضی ہوگئے چونکہ وہ سنتور بجانے میں ماہر ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرفانہ کی دوسری بہن ریحانہ اور ان کے علاوہ ان کے اسکول کی دوست گلشن اور شبنم بھی صوفیانہ موسیقی میں دلچسپی لینے لگیں۔ دھیرے دھیرے انہوں نے ایک موسیقی کا گروپ بنالیا اور آج صوفیانہ گروپ کے نام سے وہ علاقے میں معروف ہیں۔
آج عرفانہ اور ان کی ٹیم صوفیانہ موسیقی سے محبت کرنے والوں کا ایک 5 رکنی گروپ بن گیا ہے جو کشمیر میں صوفیانہ میوزک کو زندہ کرنے کے لیے تمام تر کوششیوں میں مصروف ہے۔ وہ سب مختلف کلاسز میں زیر تعلیم ہیں۔
عرفانہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا "میں نے اپنے والد کو بچپن سے ہی صوفیانہ موسیقی کے ساتھ وابستہ پایا ہے اور ان کو ہی دیکھتے دیکھتے اس فن میں میرا شوق پیدا ہوگیا۔
عرفانہ کا کہنا ہے کہ صوفیانہ موسیقی ہماری روایات تہذیب و تمدن اور ورثے کا ایک اہم جز ہے اور اس سے انسان کےدل کو سکون میسر ہوتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ اور ان کی ٹیم اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن اس پہل میں انہیں فن اور موسیقی پر کام کرنے والے اداروں کی مدد درکار ہے۔
عرفانہ کے والد اور اس ٹیم کو صوفیانہ موسیقی کی تربیت دینے والے محمد یوسف سنتور کے ماہر ہیں اور وہ گزشتہ پندرہ برسوں سے اس فن کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا ابتدائی طور پر میں نے ان لڑکیوں کو بنیادی تربیت حاصل کرنے کے لیے اپنے استاد محمد یعقوب شیخ کے پاس بھیجا۔ انہوں نے انہیں ہفتے میں ایک سبق دیا تھا اور باقی دن میں انھیں اپنے گھر پر ریاض کرواتے تھے۔ وہ عرفانہ اور ان کی ٹیم سے کافی مطمئن ہیں کہ وہ صوفیانہ موسیقی میں اس طرح کی دلچسپی رکھتی ہیں۔
یوسف کا کہنا ہے کہ صوفی موسیقی کو زندہ رکھنے کے لئے سرکاری سطح پر اس فن سے وابستہ لوگوں کو تعاون کی ضرورت ہے لیکن جس طرح کے تعاون کی انہیں توقعات ہیں اس طرح کا زمینی سطح پر انہیں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے جس سے وہ مایوس بھی ہیں۔
سنہ 2015 میں ان پانچ نوجوان اور پرعزم لڑکیاں جن کی عمریں ابھی 16 سے 21 سال کے درمیان ہیں، نے روایتی صوفی موسیقی کے مرتے ہوئے فن کو زندہ کرنے کے لئے مشترکہ پہل شروع کی اور اب یہ باضابطہ وادی کے مختلف علاقوں میں ہونے والے بہت سے پروگراموں میں حصہ لیتی رہیں۔ ضلعی سطح سے لیکر قومی سطح کے صوفیانہ موسیقی مقابلوں میں انہوں نے حصہ لیا۔
اس گروپ کو ریڈیو کشمیر نے صوفیانہ موسیقی کے زمرے میں خصوصی پروگرام نشر کرنے کے لیے منظور کر لیا ہے۔ عرفانہ اس وقت کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ میوزک اور فائن آرٹس سے بی اے کی ڈگری حاصل کررہی ہیں، دیگر لڑکیاں اسکولوں میں ہی زیر تعلیم ہیں اور وہ بھی اسے شعبے میں تعلیم حاصل کرکے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔
اگرچہ صوفیانہ موسیقی کو معدوم ہونے کا حقیقی خطرہ لاحق ہے تاہم عرفانہ اور ان کی ٹیم صوفیانہ میوزک کی روایات کو زندہ رکھنے لئے پُر امید ہیں۔ ان لڑکیوں کا خواب صوفی موسیقی کے میدان میں بلندیاں حاصل کرنا ہے اور ان کے عزائم اور ارادوں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری صوفیانہ میوزک کبھی مر نہیں سکتا۔