مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیری عوام نے ایک الگ انداز میں احتجاج کیا۔
کشمیر تاجر دن میں صرف دو گھنٹے کے لیے دکان کھولتے ہیں اور پھر احتجاجاً بند رکھتے ہیں اور دن کو مکمل ہڑتال رہتی تھی۔
اس سے قبل کشمیر میں کسی بھی تنظیم کی جانب سے ہڑتال کی کال دینے پر دکان اور تجارتی مراکز بند کر دیے جاتے تھے، تاہم رواں برس نہ کسی علحیدگی پسند رہنماؤں کی جانب سے کال دی گئی تھی اور نہ ہی کسی تاجر یا کسی اور تنظیم نے احتجاج کرنے کی اپیل کی تھی۔
لوگوں نے دفعہ 370 کو ہٹانے کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دکان بطور احتجاج بند رکھے۔
سیب کی صنعت یہاں کے معیشت کی ریڈھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے، وادی میں سیب کی سالانہ پیداوار 20لاکھ میٹرک ٹن ہوتی ہے، اس صنعت کے ساتھ یہاں کے 7لاکھ کنبوں کے تقریبا 33 لاکھ افراد منسلک ہیں۔
سال 2019 میں کشمیر میں انوکھے انداز میں احتجاج حالات کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ تاجر اور میوہ کاشتکاروں نے دفعہ 370 کی منسوخی کی ناراضگی کو لے کر احتجاجی طور سیب سے جڑی تمام سرگرمیاں از خود معطل کی تھیں، وہیں دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکی آمیز پوسٹروں کے خوف سے کاشتکاروں نے باغات میں کام کرنا بند کیا تھا۔
سیب سے جڑی تمام تر سرگرمیاں مفلوج ہونے کی وجہ سے باغات ویران نظر آرہے تھے، میوہ تیار ہونے کے باوجود لوگ سیب اتارنے سے قاصر تھے جس کی وجہ سے سیب درختوں سے گر کر خراب ہورہے تھے۔
وہیں نا مساعد حالات کے دوران میوہ صنعت کو بچانا حکومت کے لیےایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس چیلنج سے مقابلہ کرنے کے لیے حکومت نے مارکیٹ انٹر وینشن اسکیم متعارف کی اور نیفڈ کے ذریعہ کاشتکاروں سے براہ راست سیب خریدنے کی شروعات کی گئی..جس دوران سینکڑوں کاشتکاروں نے اپنا اندراج کرکے نیفڈ کو سیب فروخت کرنے لگے۔
دوسری جانب مقامی فروٹ منڈیاں بند رہنے کے بعد میوہ بیوپاریوں اور کمیشن ایجنٹس نے وادی کے مختلف دیہی علاقوں میں عارضی منڈیاں قایم کرکے سیبوں کی خریدو فروخت کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کے بعد میوہ کاشتکاروں نے راحت کی سانس لی ۔ وہیں حالات میں تھوڑی سی تبدیلی کے آثار نظر آنے کے ساتھ ہی بیرونی ریاستوں کی منڈیوں تک سیب کی رسائی ممکن ہونے لگی تھی۔
تاہم ضلع پلوامہ اور اننت ناگ میں نا معلوم مسلح افراد کی جانب سے کیے گئے تین الگ الگ حملوں میں چھہ 6 غیر ریاستی مزدوروں ایک تاجر اور 4 ڈرائیوروں کی ہلاکت کے بعد مذکورہ منڈیوں میں تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ واقعات کے بعد سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پولیس نے ٹرک ڈرائیوروں کو بھی دیہات کے اندر گاڑیاں لوڈ کرنے سے روک دیا، جس دوران میوہ کاشتکاروں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
آہستہ آہستہ حالات پٹری پرلوٹنے کے ساتھ ہی صنعت سے جڑی تمام سرگرمیاں شروع ہونے لگی، تاہم موسم کی مار نے کاشتکاروں کو اس وقت پھر پریشانی میں ڈال دیا جب سات نومبر کو غیر متوقع اور قبل از وقت برفباری نےان کی رہی سہی کسرنکال دی۔