جنوبی کشمیر میں ضلع اننت ناگ کے دور دراز علاقہ ویل ناگبل کے رہنے والے اٹھارہ سالہ نوجوان نثار احمد پھامڈ کی دونوں ٹانگیں پولیو کی زد میں آکر بچپن سے ہی جسمانی طور معذور ہیں۔
جسمانی طور ناخیز ہونے کے باوجود نثار غربت و مفلسی کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ اپنے ضعیف العمر والدین کا اکلوتا سہارا ہونے کے سبب نثار اپنے والدین کی کفالت کرنے کے لئے جدو جہد کر رہا ہے۔
جسمانی طور معذور نثار ضعیف العمر والدین کا اکلوتا سہارا نثار روزانہ اپنے ہاتھوں کے سہارے گھسیٹ گھسیٹ کر تقریبا چار کلو میٹر کا سفر طے کرکے نزدیکی علاقے میں جاکر درزی کا کام کرتے ہیں۔
درزی کی دکان تک پہنچنے کے لئے اسے روزانہ جانے اور آنے کے دوران درد بھرے سفر سے گزرنا پڑتا ہے۔
نثار کا کہنا ہے کہ کیچڑ و خستہ حال سڑک سے چلنے کے دوران ان کی ٹانگوں میں کھرونچیں اور ہاتھوں میں سوجن ہوتی ہے۔
ان کاکہنا ہے کہ اس تکلیف کو سہنا ان کے لئے اب معمول بن گیا ہے۔ تاہم وہ اچھا ٹیلر بننے کی خواہش کو لے کر تکلیفیں سہنے کے لئے تیار ہے تاکہ وہ اچھی آمدنی حاصل کرکے اپنے والدین کی ضرورتوں کو پورا کر پائے۔
نثار کا کہنا ہے کہ ان کے والد محنت مزدوری کرکے ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ معذور ہونے کے باوجود ان کے والدین نے کبھی بھی انہیں معذور اور محتاج ہونے کا احساس نہیں دلایا۔ تاہم نثار کا معذور جسم ایک روز اس وقت گھر کے بوجھ کے نیچے آگیا جب ان کے والد عبدالکریم ایک پیڑ سے گر کر ناخیز ہوگئے۔
اپنے والد کے سہارے کا محتاج نثار نے ہمت اور حوصلے سے کام لیا اور اپنے بوڑھے والدین کی کفالت کی ذمہ داری لینے کی ٹھان لی۔
ان ہی بلند حوصلوں کے سہارے نثار نے درزی (ٹیلر ) بننے کی خواہش کی اور وہ اپنے نزدیکی گاؤں سالیہ میں ایک ٹیلر ماسٹر کی دکان پر درزی کا کام سیکھنے لگے۔
نثار گزشتہ ایک سال سے روزانہ مصائب و مشکلات کا سامنا کرکے اپنے گھر کی کفالت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قلیل آمدنی ہونے کی وجہ سے وہ اپنے لئے سکوٹی خریدنے کی استقامت نہیں رکھتے ہیں۔ جس کے لئے انہوں نے سرکار سے ایک سکوٹی فراہم کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ انہیں روزمرہ کی زندگی کے دوران پیش آ رہے مشکلات سے کچھ حد تک راحت مل سکے۔