مریضہ ریڈ زون علاقہ سے تعلق رکھتی تھیں، یہ جان لینے کے باوجود اُسے آئیسولیشن کے بجائے عام مریضوں کے وارڈ میں رکھا گیا تھا، جہاں مریضہ نہ صرف وارڈ میں موجود دیگر مریضوں اور تیمارداروں کے رابطہ میں آگئی بلکہ جس بیڈ پر اُسے رکھا گیا تھا اسے کئی مریضوں کے استعمال میں لایا گیا تھا۔
مریضہ سے خون کے نمونے حاصل کیے گئے تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ کہیں وہ کورونا وائرس کی شکار تو نہیں ہے، تاہم ٹیسٹ رپورٹ ابھی آنا باقی تھی تو ہسپتال انتظامیہ نے مریضہ اور اُس کے جڑواں نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کو لواحقین کے حوالے کردیا جس کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم لواحقین کے گھر پر اُمڈ آیا، یہی نہیں بلکہ نماز جنازہ میں بھی لوگوں کی کثیر تعداد موجود رہی۔
وہیں جس ایمبولینس میں مذکورہ لاشیں روانہ کی گئیں اسی ایمبولینس کو دیگر کئی مریضوں کی آمدورفت کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایمبولینس ڈرائیور نے، خود کو محفوظ رکھنے کے لیے پی پی ای کٹ، کی مانگ کی تھی تاہم اس کے مطالبہ پر غور نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق تھیٹر اور لیبر روم میں موجود ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ نے مذکورہ مریضہ کا علاج شروع کرنے سے قبل مکمل حفاظتی آلات یعنی ( پی پی ای) کی مانگ کی تھی۔ تاہم عدم دستیابی کی وجہ انہیں (پی پی ای کے بغیر ہی) مجبوراً مریضہ کا علاج کرنا پڑا۔
اگرچہ ہسپتال انتظامیہ نے تین ڈاکٹروں اور دو نرسوں کو ہوم قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت دی تھی تاہم فوت شدہ خاتون کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد انہیں قرنطینہ مرکز بھیج دیا گیا۔
ہسپتال انتظامیہ نے معاملے کی چھان بین کے لیے چار ڈاکٹرز پر مشتمل انکوائری ٹیم تشکیل دیکر انہیں فوری طور پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔