اننت ناگ:دور حاضر میں کھیتی باڑی میں تبدیلی آنے سے نہ صرف دیہاتی کلچر کو نقصان پہنچا ہے بلکہ ایک دوسرے کی مدد اور ہاتھ بٹانے کی قدیم روایت بھی دم توڑ رہی ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور کشمیر ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ تاہم وقت گزرنے اور ترقی میں جدت آنے کے ساتھ لوگ اپنی تہذیب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک زمانے میں ذرائع آمدن کم ہونے کے سبب کشمیری باشندے روزی روٹی کی تلاش میں ملک کی دوسری ریاستوں کا رُخ کرتے تھے،تاہم گزشتہ چند دہائیوں میں زراعت کے شعبے میں ترقی کے سبب کام کی تلاش کرنے والے لوگ خود کام فراہم کرنے لگے۔ کشمیر کے کھیتوں میں آج غیر کشمیری مزدور جا بجا کام کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ دھان کی روپائی اور کٹائی سے لے کر سیب کے باغات میں جراثیم ادویات کے چھڑکاؤ اور فصل کاٹنے کا کام تک غیر کشمیری مزدوروں سے کرایا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں مزدوروں اور مشینریز کا استعمال عام ہونے لگا،جس سے یہ کلچر، کام کے بدلے دام میں تبدیل ہو گیا۔ماضی میں دھان کی پنیری نکالنے،اس کی روپائی، دھان کے کھیتوں سے فضول گھاس نکالنے سے لے کر دھان کی کٹائی میں لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے تھے جس میں ہر مذہب کے لوگ بلا مذہب و ملت شریک ہوتے تھے، یہ عمل نہ صرف یہاں کے تہزیب و ثقافت کے ورثہ کی عکاسی کرتا تھا بلکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی، ہمسایہ، رشتہ داروں، دوست و احباب کے ساتھ محبت و ملنساری کا جذبہ برقرار رہتا تھا۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے مقامی بزرگوں نے کہا کہ طرز زندگی میں تیزی سے بدلاؤ ہونے کے سبب یہاں کے لوگ خود کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ انہون نے کہا کہ اچانک یہاں کے لوگوں میں اتنی کاہلی آگئی کہ اب ہر کام میں غیر کشمیری مزدوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، وہیں نئی نسل کھیتی باڑی میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، پڑھے لکھے نوجوان خود زمینداری کرنے میں پشیمانی محسوس کرتے ہیں۔