اننت ناگ:وادی کشمیر کی قدرتی خوبصورتی جہاں پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے، وہیں مذہبی رواداری، صوفی بزرگوں، اولیاء کاملین اور بلند پایہ مذہبی شخصیات کی موجودگی سے اس کی ایک الگ پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خوبصوررت وادی کو پیر وار بھی کہا جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک بزرگ خاتون چودھویں صدی میں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے کریری ڈورو شاہ آباد میں پیدا ہوئیں، جن کو حاجی دیدی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس بزرگ خاتون نے جوانی میں ہی دنیاوی لذت کو خیرباد کیا اور خود کو سماج سے الگ تھلگ کر لیا۔ وہ ضلع صدر مقام اننت ناگ سے تقریباً 35 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع کریری کی سنسان پہاڑیوں میں یاد خداوندی میں مشغول ہو گئیں۔Haji Deedi Dargah In Anantnag
یہ درگاہ گھنے جنگلات کے بیچ واقع ہے اور اکثر بیشتر بکروال ان جنگلات میں مال مویشی چراتے ہیں۔ اس درگاہ پر بکروال لوگ زیادہ عقیدہ رکھتے ہیں اور اپنے مال مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی سے قبل اور جموں سے کشمیر واپس لوٹنے کے دوران وہ لازماً درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔ Bakerwals In Haji Deedi Dargah In Anantnag
کہتے ہیں کہ چودھویں صدی میں بُلبُل شاہ کے وقت حاجی دیدی نے اس پہاڑی پر اپنا ٹھکانہ بنا کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گئیں۔ اس وقت اس کی عمر 17 برس تھی۔ ایک روز ایک مقامی شخص نے حاجی دید کو شادی کرنے کی صلاح دی اور کہا کہ شادی کروانے میں وہ اس کی مدد کرے گا ۔ یہ خبر سننے کے بعد وہ کافی مایوس ہو گئیں اور کئی روز تک شدید بیمار ہوگئی۔ کئی روز علالت کے بعد وہ انتقال کر گئی۔ ان کی آخری رسومات انجام دینے کے دوران ان کا تابوت اُڑھ کر پاس کے علاقے بُونہ گنڈ روزہ بل کے مقام پر بیٹھ گیا۔
مقامی لوگ جب تابوت کو کھولنے کے لیے گئے تو وہاں سے ڈنک مارنے والی مکھیوں کا جُھنڈ نکل گیا اور کوئی بھی شخص تابوت کو کھولنے کی جرات نہیں کر سکا۔ اُسی رات ایک مقامی بزرگ کو حاجی دیدی خواب میں آئیں اور اسے اپنے دفن ہونے کے ٹھکانے کے بارے میں جانکاری دی۔
مقامی لوگوں نے ڈھونڈتے ہوئے اسی جگہ پر وہ نشانات پائے جہاں آج اس کی درگاہ موجود ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ حاجی دیدی ایسی بلند پایہ خدا دوست تھیں کہ اسے بظاہر کسی نے دفن نہیں کیا۔
کہا جاتا ہے کہ حاجی دیدی کی درگاہ کی دیکھ بال کے ذمہ کو لے کر برنگ اور ڈورو شاہ آباد علاقہ کے لوگوں کے درمیان تنازع ہوا تھا۔ تاہم اس وقت کے حکمرانوں نے قریب پانچ برس بعد ڈورو شاہ آباد کریری علاقہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور تب سے لے کر آج تک اسی علاقہ کے لوگ اس درگاہ کی دیکھ بال کر رہے ہیں۔ درگاہ پر سال میں ایک بار عرس بھی منعقد کیا جاتا ہے جس میں دور دور سے عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:زیارت سخی زین الدین ولی (رح) مذہبی ہم آہنگی و آپسی بھائی چارے کا گہوارہ
کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے درگاہ کی تجدید و مرمت کی گئی تھی، درگاہ تک جانے کے لئے پہاڑی پر پختہ سیڑھیاں بنائی گئیں اور بجلی کے کھمبے بھی نصب کیے گئے، تاہم آج بجلی نظام بھی ناکارہ ہے اور سیڑھیاں بھی خستہ ہو چکی ہیں، وہیں درگاہ کی ایک جانب کافی پرانی مسجد ہے جو بوسیدہ ہو چکی ہے۔ درگاہ میں مسافر خانہ بھی موجود نہیں ہے۔ عقیدت مندوں اور درگاہ کے منتظمین نے حکومت سے درگاہ میں، بجلی، پانی، سڑک، مسافر خانہ اور مسجد کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا۔