آئی پی ایل کا انعقاد 29 مارچ سے ہونا تھا لیکن کورونا وائرس کے خطرے کو دیکھتے ہوئے ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن اور سفر کی پابندیوں کی وجہ سے بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) نے اسے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔
اگرچہ بی سی سی آئی کے ذرائع کا خیال ہے کہ ستمبر سے نومبر کے درمیان اس انعقاد کے لیے ونڈو تیار کی جا رہی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب اس برس آسٹریلیا میں اکتوبر-نومبر میں ہونے والے ٹی-20 ورلڈ کپ کو ملتوی کیا جائے۔
بی سی سی آئی کے خزانچی ارون سنگھ دھومل نے حال ہی میں کہا تھا کہ اگر اس برس آئی پی ایل منسوخ کیا جاتا ہے تو اس سے بورڈ کو تقریبا چار ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ آئی پی ایل کے سابق چیف ایکزیکٹو آفسر رمن کا بھی خیال ہے کہ آئی پی ایل کے منسوخ ہونے سے کرکٹ بورڈ کو اقتصادی طور پر کافی نقصان ہوگا اور عالمی کرکٹ اس نقصان کو برداشت نہیں کر پائے گا۔
رمن کا کہنا ہے کہ آئی پی ایل برس میں ایک بار ہوتا ہے اور اس سے عالمی کرکٹ کی آمدنی کا 40 فیصد حصہ آتا ہے تو اس کے منسوخ ہونے سے زیادہ نقصان ہوگا۔
آئی پی ایل اور ٹی-20 ورلڈ کپ میں سے کسی ایک ٹورنامنٹ کے انعقاد کا امکان پر رمن نے کہا کہ ایسی صورت میں آئی پی ایل کو منعقد کرانا چاہئے۔ ان کے مطابق ناظرین کے بغیر اگر ٹی-20 ورلڈ کپ کا انعقاد ہوتا ہے تو اس سے کرکٹ آسٹریلیا کو ٹکٹ آمدنی میں فائدہ نہیں ملے گا جبکہ آئی پی ایل ناظرین کے بغیر بھی ٹی وی ریٹنگ کے ذریعے بڑی آمدنی لا سکتے ہیں اور اس سے فرنچائزز اور بورڈ کو یقینی طور پر فائدہ ہوگا۔
رمن نے کہا کہ آئی پی ایل سے اکیلے کھلاڑیوں کو 10 کروڑ روپے ڈالر تنخواہ ملتی ہے جو آئی سی سی کے تین چار رکن بورڈز کے کل نشریہ آمدنی کے برابر ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ برس ون ڈے ورلڈ کپ ہونے کے باوجود آئی پی ایل کی آمدنی عالمی کپ سے 30 فیصد زیادہ تھی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ٹورنامنٹ کا منسوخ ہونا اقتصادی طور پر کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس برس ٹی-20 ورلڈ کپ ہونے کے باوجود آئی پی ایل کی آمدنی کا اندازہ ٹی-20 ورلڈ کپ کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ لگایا گیا ہے۔ رمن نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ان دونوں ٹورنامنٹ کا منسوخ ہونا اس برس کرکٹ پر اقتصادی طور پر سنگین اثرات ڈالے گا۔