اردو

urdu

ETV Bharat / sitara

K Asif 51st Death Anniversary: کے آصف ہدایت کار نہیں ہندی سینما کے جادوگر تھے - کے آصف کی برسی

سلیم اور انارکلی کی محبت کی داستان کو پردے پر دکھانے والے کے آصف کی آج 51 ویں برسی ہے۔ ہندی سنیما میں اتنی مختصر زندگی گزارنے کے بعد بھی انہیں بہت یاد کیا جاتا ہے۔ کے آصف کا اپنا فلمی کیریئر بظاہر تین چار فلموں تک ہی محدود ہے لیکن ان کے اندر کام کرنے کا جو جذبہ تھا وہ اتنی شدت سے ابھرکر سامنے آتا تھا کہ سینما ہال سے نکلنے کے بعد بھی ان کی فلم کا ہر فریم اور ڈائیلاگ لوگوں کے دلوں اور ذہن میں سنائی دیتا تھا۔ K Asif 51st Death Anniversary

کے آصف ہدایتکار نہیں بلکہ ہندی سینما کے جادوگر تھے
کے آصف ہدایتکار نہیں بلکہ ہندی سینما کے جادوگر تھے

By

Published : Mar 9, 2022, 2:38 PM IST

بالی ووڈ میں فلم ساز کے آصف کو بالی ووڈ کی دنیا میں ایک عظمیم فلمی ہستی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کے آصف کا فلمی کیرئیر صرف تین دہائیوں تک ہی محیط تھا لیکن اس چھوٹے سے مدت میں انہوں نے اپنی فلموں کے ذریعہ فلم بینوں کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ دئیے ہیں۔ Mughal e Azam Director K Asif Death Anniversary

کے آصف کا اپنا فلمی کیریئر بظاہر تین چار فلموں تک ہی محدود ہے لیکن ان کے اندر کام کرنے کا جو جذبہ تھا وہ اتنی شدت سے ابھرکر سامنے آتا تھا کہ سینما ہال سے نکلنے کے بعد بھی ان کی فلم کا ہر فریم اور ڈائیلاگ لوگوں کے دلوں اور ذہن میں سنائی دیتا تھا۔

وہ اپنے کام کو بے نقص رکھنے میں اس قدر استغراق سے کام لیتے تھے کہ اکثر ان پر سست رفتاری کا الزام بھی لگتا رہا جس کی انہوں نے کبھی پرواہ نہیں کی اور جب بھی ان کی فلم پردہ کی زنیت بنی تو و ایک عہد کو متاثر کر گئی۔

کے آصف نے 14 جون 1922 کو اترپردیش کے اٹاوہ میں ایک درمیانے طبقے کے مسلم خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ ان کا پورا نام آصف کریم تھا۔ چاليس کی دہائی میں وہ اپنے ماموں جان نذیر کے پاس ممبئی آ گئے جہاں ان کی درزی کی دکان تھی۔ ان کے ماموں فلموں میں ملبوسات سپلائی کیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے چھوٹے بجٹ کی ایک دو فلمیں بھی بنائیں۔ اس طرح سے آصف ان کا ہاتھ بٹانے لگے ۔ انہیں اپنے ماموں کے ساتھ فلم اسٹوڈیو جانے کا موقع ملنے لگا ۔ دھيرے دھیرے ان کے اندر فلموں سے دلچسپی بڑھتی گئی۔

کے آصف ہدایتکار نہیں بلکہ ہندی سینما کے جادوگر تھے

کے آصف سليم اور اناركلی کی محبت کی کہانی سے کافی متاثر تھے ۔ فلموں سے دلچسپی بڑھنے پر وہ اس کہانی کو پردہ سیمیں پر لانے کا خواب دیکھنے لگے۔ 1945 میں بطور ڈائریکٹر انہوں نے فلم پھول سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ پرتھوی راج کپور، ثریا اور درگا کھوٹے جیسے بڑے ستاروں والی یہ فلم باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد کے۔آصف نے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ہمت پیدا کی اور ’’مغل اعظم‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔ کرداروں کے انتخاب کا مرحلہ آسان نہ تھا ۔کے آصف کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ابتدا میں انہوں نے شہزادہ سلیم کے کردار کے لئے چندر موہن کو اور انارکلی کے کردار کے لئے اداکارہ وینا کے علاوہ اکبر کے کردار کے لیے سپرو کا انتخاب کیا۔جب چندر موہن کے سامنے انہوں نے یہ تجویش پیش کی تب چندر موہن نے ان سے صاف لفظوں میں یہ کہہ دياکہ وہ اس فلم میں اسی شرط پر کام کریں گے جب کے آصف اس فلم کی ہدایت کی ذمہ داری خود نہ اٹھائیں۔

جس پر کے آصف نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ وہ اس دن کا انتظار کریں گے جب ان (چندر موہن) کو ان (کے آصف) کی صورت پسند آنے لگے گی ۔ اكبر کے کردار کے لئے کے آصف نے چندر موہن منتخب اس لئے کیاتھا کیونکہ ان کی آنکھ بھی اداکار سپرو کی طرح نیلی تھی۔

اداکار چندر موہن کی 1946 بے وقت موت ہو گئی۔اس کے بعد کے آصف نے سپرو کے سامنے اکبر کا کردار ادا کرنے کی تجویز پیش کی اور انارکلی کے کردار کے لیے نرگس اور سلیم کے کردار کے لئے دلیپ کمار کو منتخب کیا لیکن سپرو نے جو نرگس کے ساتھ فلموں میں بطور اداکار کام کر چکے تھے، اکبر کا کردار نبھانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں اداکارہ نرگس نے بھی فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا. تب مدھوبالا کے سامنے انار کلی کا کردار ادا کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور اکبر کے کردار کے لئے پرتھوی راج کپور کو منتخب کیا گیا۔

اس طرح 1951میں ایک بار پھر مغل اعظم کی فلم سازی کا کام شروع ہوا۔

اسی دوران كے آصف نے دلیپ کمار نرگس اور بلراج ساہنی کے ساتھ فلم هلچل شروع کی، جو کامیاب ثابت ہوئی۔ اس فلم سے منسلک ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ’اپٹا‘ سے وابستگی اور اپنے انقلابی اور کمیونسٹ خیالات کی وجہ بلراج ساہنی کو جیل بھی جانا پڑا۔ خصوصی انتظامات کے تحت وہ فلم کی شوٹنگ کیا کرتے تھے اور شوٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ واپس جیل چلے جاتے تھے۔

فلم’’ مغل اعظم‘‘ بنانے میں تقریبا 10 سال لگ گئے ۔ اس دوران سلیم انارکلی کی محبت کی کہانی پر بنی ایک اور فلم اناركلي پردہ سیمیں پر آکر سپر ہٹ بھی ہو گئی ۔ لیکن اس کے باوجود 1960 میں جب مغل اعظم منظر عام پر آئی تو اس نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔

فلم کی موسیقی بے انتہا مقبول ہوئی۔اس سے منسلک بھی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ موسیقار نوشاد نے ایک لاکھ روپے ایڈوانس کی پیش کش کے باوجود اپنی مصروفیت کی وجہ سے اس فلم کی موسیقی ترتیب دینے سے انکار کر دیا تھا ۔

كے آصف ہر قیمت پر فلم میں نوشاد سے کام لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے جب نوشاد کو کام کرنے کے لئے اور روپیوں کا لالچ دیا تو وہ پلٹ کر بولے کہ’’ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے اور آپ ہر چیز خرید لیں گے۔ آپ اپنے پیسے واپس لیں میں فلم نہیں كروں گا‘‘۔ اس پر آصف صاحب نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا ’’ دیکھتا ہوں کس طرح نہیں کریں گے ۔ اتنے پیسے دوں گا کہ آج تک کسی نے نہیں دیئے ہوں گے‘‘۔

اس کے بعد آصف نے جب اور پیسہ بڑھانے کے لئے اشارہ کیا تو نوشاد نے غصے میں آکر نوٹوں کا بنڈل اس طرح پھینکا کہ پورے کمرے میں نوٹ ہی نوٹ بکھر گئے۔ نوشاد کی بیوی اور نوکر نے سارے نوٹ اٹھالئے تو نوشاد نے کہا ’’ اچھا آصف صاحب آپ اپنے پیسے اپنے پاس رکھ لیجئے ہم فلم میں ساتھ کام کریں گے‘‘۔

فلم مغل اعظم کی کامیابی کے بعد كے آصف نے راجندر کمار اور سائرہ بانو کے ساتھ’ سستا خون مہنگا پانی ‘ بنانی شروع کی لیکن کچھ دنوں کی شوٹنگ ہونے کے بعد انہوں نے اس فلم کو بند کر دیا اور گرودت اور نمي کے ساتھ لیلی مجنو کی کہانی پر مبنی فلم ’لو اور گوڈ‘ کی عکس بندی شروع کی۔

گرو دت کی 1964 میں بے وقت موت کے بعد گرودت کی جگہ اداکار سنجیو کمار کو کام کرنے کا موقع ضرور دیا لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوا اور 9 مارچ 1971 کو دل کا دورہ پڑنے سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کے آصف کی بیوی اختر کی کوشش سے یہ فلم 1986 میں کسی طرح ریلیز کر دی گئی۔

مزید پڑھیں: فلم مغل اعظم کے ساٹھ برس مکمل

ABOUT THE AUTHOR

...view details