فلمساز باسو چٹرجی کا 90 برس کی عمر میں ممبئی میں انتقال ہو گیا۔
باسو چٹرجی کا جنم 10 جنوی 1930 کو راجستھان کے شہر اجمیر میں ہوا تھا۔ ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ باسو چٹرجی نے ہوش سنبھالا تو ان کے والد آگرہ کے شمال میں اُتر پردیش کے شہر متھرا میں تعینات تھے۔
اُن کے بقول انہوں نے وہیں گیان حاصل کیا۔ وہ نوجوانی میں فلمیں دیکھتے تھے اور ایک کارٹونسٹ کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا جبکہ اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز سنہ 1969 میں ریلیز ہونے فلم 'سارا آکاش' سے کیا تھا۔
ہندی سنیما میں جب اینگری ینگ مین کا دور عروج پر تھا اور منموہن دیسائی، پرکاش مہرہ، یش چوپڑا جیسے عظیم فلمسازوں کا طوطی بولتا تھا، تبھی باسو چٹرجی نے الگ بناتے ہوئے عام آدمی کو ذہن میں رکھ کر صاف ستھری اور مزاحیہ فلمیں بنائیں جو نہ صرف باکس آفس پر کامیاب ہوئیں بلکہ نقاد بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے۔
باسو چٹرجی نے 70 اور 80 کی دہائی میں چھوٹی چھوٹی سی بات، باتوں باتوں میں، کھٹا میٹھا، چمیلی کی شادی، رجنی گندھا، چت چور، پیا کا گھر، سارا آکاش، سوامی، شوقین جیسی ایک سے بڑھ کر ایک ہٹ فلمیں بنائیں۔
باسو چٹرجی ہندی سنیما کے ان چند فلم سازوں میں سے ایک تھے جن کی فلموں سے عام آدمی کے مسائل اور پریشانیاں ابھر کرسامنے آئیں۔
رشی کیش مکھرجی کی روایت کو آگے بڑھانے والے باسو چٹرجی نے اپنی فلموں میں سمجھوتہ نہیں کیا اور پورے کنبے کو دھیان میں رکھتے ہوئے فلمیں بنائیں اور زندگی کو خوبصورتی کے ساتھ اسکرین پر اتارا۔
فلمساز باسو چٹرجی کے انتقال پر بالی وڈ سوگوار ہندی کے مشہور ادیب راجندر یادو، جنہوں نے 'نئی کہانی' کی تحریک چلائی اور اپنے ہی ماحول کا نقشہ بیان کرتے ناول 'سارا آکاش' لکھا تھا۔
باسو چٹر جی نے اپنی پہلی فلم کے لیے اسی ناول 'سارا آکاش' کا انتخاب کیا۔ سارا آکاش کے بارے میں وہ کہتے ہیں، کہ انہوں نے اس سے پہلے جتنی فلمیں دیکھیں وہ ان سب فلم کا نچوڑ تھا۔ فلم سارا آکاش اس ناول کے ایک خاص حصے پر مبنی تھی اور باسو اسی فلم کو اپنی بہترین فلم قرار دیتے ہیں۔
اس کے بعد سنہ 1972ء میں فلم 'پیا کا گھر' بنائی لیکن 1974ء میں ریلیز ہوئی 'رجنی گندھا' وہ فلم تھی جس نے انہیں سب کی نظروں میں پہچان دی۔ ’رجنی گندھا‘ سے مکیش نے نیشنل فلم ایوارڈ کی جانب سے بہترین گلوکار کا انعام بھی جیتا تھا اور باسو چٹرجی کو بہترین ہدایت کار کے علاوہ بہترین فلم کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔
باسو چٹر جی نے مجموعی طور پر 42 فلمیں بنائیں اور ہر فلم کسی نہ کسی حوالے سے یادگار رہی۔
باسو دا کی زندگی کی سب سے یادگار فلموں میں سے ایک راجشری پروڈکشن کی سنہ 1976 میں بنائی گئی فلم 'چت چور' تھی۔ اس فلم میں امول پالیکر اور زرینہ وہاب مرکزی کردار میں تھے۔ اس فلم کی کہانی دلچسپ اور یکساں طور پر عام زندگی پر مبنی تھی۔
باسو چٹرجی ایک عام انسان کی طرح عام لوگوں میں رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے ارد گر عام لوگوں کی خوشیوں کے رنگ بھی دیکھے، اور غم بھی پہچانے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'میری فلمیں زندگی سے باہر نہیں ہیں۔ ایسی فلمیں جن میں ایک ہیرو جو دس لوگوں سے لڑتا ہے اور جیت جاتا ہے، وہ ان سے نہ بن سکیں بلکہ ان کا کہنا تھا جیون جیسا ہے اسے ویسا ہی دکھانا چاہیے اور انہوں نے ویسی ہی فلمیں بنائیں۔
باسو چٹرجی نے عام آدمی کے مسائل اور پریشانیاں اسکرین پر پیش کی تھیں باسو چٹرجی اپنے فلمی سفر سے مطمئن تھے۔ نئی نسل کے لیے ان کا پیغام تھا کہ اپنے آپ پر یقین رکھیں اور جیسی فلم بنانا چاہتے ہیں ویسی ہی فلم بنائیں ورنہ نہ بنائیں۔
باسو چٹرجی کی بیٹی روپالی گوہا بھی ہدایت کار ہیں، جن کی پہلی فلم 'آم رس' سنہ 2009 میں ریلیز ہوئی تھی۔
باسو چٹرجی کی چند اہم فلموں میں سارا آکاش(1969)، رجنی گندھا (1974)، چِت چور (1975)، چھوٹی سی بات (1975)، کھٹا میٹھا (1978)، باتوں باتوں میں (1979)، منزل (1979)، شوقین (1981)، پسند اپنی اپنی (1983)، کملا کی موت (1989)، گداگدی (1997) اور کچھ کٹھا کچھ میٹھا (2007) قابل ذکر ہیں۔