یکم مئی کو دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ اتفاق ہے کہ آج ہی کے دن سنہ 1913 میں بھارت میں ایک ایسی عظیم شخصیت کی پیدائش ہوئی تھی جس کا دل مزدوروں کے لیے دھڑکتا تھا
اس کی آنکھوں میں ایسے ملک کا خواب تھا جس میں بھوک اور غربت نا ہو، جہاں لوگ آزاد ہوں اور پورے سوابھیمان کے ساتھ اپنی زندگی کے فیصلے لیتے ہوں، اس عظیم شخصیت کا نام ہے بلراج ساہنی۔
بلراج ساہنی کے والدین انہیں محبت سے يدھشٹھر بلاتے تھے، لیکن جب يدھشٹھر اسکول جانے لگے، تو ان کا نام بدل کر بلراج ساہنی کر دیا گیا۔
وہ بھارتی سنیما کے ایسے ستارے ہیں جسے آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی متحرک اداکاری سے پردے پر کئی کردار زندہ کئے ہیں۔
بلراج ساہنی کی پیدائش راولپنڈی میں ہوئی تھی، جو تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں چلا گیا۔
انہوں نے لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی اور ہندی میں ایم اے کیا، اس کے بعد اپنی بیوی دمینتی ساہنی کے ساتھ 1936 میں شانتی نکیتن کے وشوبھارتی یونیورسٹی میں پڑھانے چلے آئے، وہاں وہ ہندی اور انگریزی، دونوں موضوعات پڑھاتے تھے۔ یہیں ان کی ملاقات میری سیٹن سے ہوئی۔
انہوں نے بلراج کو سوویت فلم سے رو برو کرایا، اسی دور میں انہوں نے یورپی سنیما کو بھی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا، مارکس کے اصول سے ان کا تعارف بھی لندن میں قیام کے دوران ہی ہوا۔
سنہ 1943 تک بلراج ساہنی مکمل طور پر کمیونسٹ نظریے کے حامل ہو چکے تھے۔ اس سال وہ بھارت واپس آئے اور بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے رکن بنے اور اس کی ثقافتی یونٹ والی انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) کے ساتھ جڑ گئے۔
اپٹا کے ساتھ وابستگی سے ڈرامے میں اداکاری کا سلسلہ شروع ہوا اور سنہ 1946 میں 'انصاف' فلم کے ساتھ ان کے فلمی سفر کی شروعات ہوئی۔ اس کے بعد كےاے عباس کی فلم 'زمین کے سرخ رنگ' میں انہیں کام کرنے کا موقع ملا۔
لیکن بطور اداکار بلراج ساہنی کی شناخت بمل رائے کی فلم دو بیگھہ زمین سے ہوئی۔ یہ فلم 1953 میں ریلیز ہوئی اور اس نے كانس فلم فیسٹیول میں بین الاقوامی ایوارڈ جیت لیا، اس فلم کے لئے بلراج ساہنی نے کافی محنت کی تھی۔
بلراج ساہنی کے قریبی بتاتے ہیں کہ اس فلم کے لئے بلراج ساہنی نے کولکاتا کی سڑکوں پر کئی دن تک رکشہ چلانے کی مشق کی۔ ان کا چہرہ اتنا عام تھا کہ لوگ رکشہ ڈرائیور سمجھ لیتے تھے اور وہ انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیتے تھے۔
دو بیگھہ زمین میں ان کی اداکاری نے شائقین کے دل پر گہرا اثر چھوڑا، اس کے بعد بلراج ساہنی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ایک کے بعد ایک کئی بڑی فلمیں کی۔
اپنے دور کی انہوں نے تمام بہترین اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا جس میں پدمنی، نوتن، مینا کماری، نرگس وغیرہ شامل ہیں اور ان سبھی کے ساتھ انہوں نے یادگار فلمیں کیں۔
بلراج ساہنی بہت شاندار آرٹسٹ تھے وہ کسی بھی کردار کو اتنی سادگی سے جیتے تھے کہ دونوں کو جدا کرنا ناممکن ہو جاتا تھا، بلراج ساہنی نے سنہ 1950 اور 60 کی دہائی میں ایک سے بڑھ کر ایک کئی ہٹ فلمیں دیں۔
ان میں بنديا، سیما، سونے کی چڑیا، سٹہ بازار، کٹھ پتلی، لاجونتی، گھر سنسار، نيل كمل، گھر گھر کی کہانی، دو راستے، ایک پھول دو مالی اور وقت وغیرہ جیسی فلمیں شامل ہیں۔
لیکن ان کی ایک فلم جانکار1973 میں ریلیز ہوئی، تاہم ان کی آخری فلم گرم ہوا کو ان بہترین فلم مانا جاتا ہے۔
عصمت چغتائی کی کہانی پر بنی اس فلم کی ہدایت ایم ایس ستھيو نے کیا تھا۔
یہ فلم 1947 کے بھارت تقسیم کے پس منظر پر بنی تھی، اس میں بلراج ساہنی نے سلیم مرزا کے کردار کو کچھ اس طرح ادا کیا کہ اس کے لیے انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا، اس فلم کو نیشنل ایوارڈ ملا۔
بلراج ساہنی کے بیٹے پریکشت ساہنی بھی اسے ان کی زندگی کا سب سے بہترین فلم مانتے ہیں۔
دی كوئیںٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ نیشنل ایوارڈ کے اعلان سے چند دن پہلے ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔
بلراج ساہنی شاندار اداکار ہونے کے ساتھ لاجواب مصنف بھی تھے، انہوں نے آغاز میں انگریزی میں لکھنا شروع کیا تھا، لیکن بعد میں پنجابی میں لکھنے لگے
سنہ 1960 میں انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور 'میرا پاکستان سفر' نام سے کتاب لکھی۔
اپنے 1969 کی سوویت سنگھ کے دورے پر ان کی کتاب 'میرا روسی سفر نامہ'شائع ہوئی، اپنی فلمی زندگی پر انہوں نے 'میری فلمی آتم کتھا' کے نام سے کتاب لکھی۔
13 اپریل سنہ 1973 کو بھارتی سنیما کے اس عظیم آرٹسٹ نے دنیا کو الوداع کہا، لیکن عظیم آرٹسٹ مرتے نہیں ہیں بلکہ وہ وقت کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں اور اپنے مداحوں کے دلوں میں بس جاتے ہیں اور اپنے کرداروں سے یاد کیے جاتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو آج ہم سب بلراج ساہنی کو یاد نہیں کر رہے ہوتے۔