پانچ لاکھ مٹرک ٹن مکئی امپورٹ کرنے کے حکومتی فیصلے سے بھارتی کسانوں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے
عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش میں بھارت سرکار نے پندرہ فیصد رعایتی محصولات پر 'ٹیرف ریٹ (فردِ محاصل) کوٹہ اسکیم' کے تحت پانچ لاکھ مٹرک ٹن مکئی اور دس ہزار مٹرک ٹن دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء امپورٹ (درآمد) کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کے اس اقدام کا کسانوں پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔
بھارت عالمی نظم کی ایک رکن کی حیثیت سے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) معاہدے کا دستخط کنندہ ہے۔ یہ ایک کثیر الجہتی (ملٹی لیٹرل) عالمی ادارہ ہے اور اس کا مقصد دُنیا بھر میں آزادانہ تجارت (فری ٹریڈ) کو فروغ دینا ہے۔ یہ ادارہ اس مقصد کے لئے تجارت پر تمام طرح کی قدغن جیسے کہ محصولات، در آمدگی محصولات اور سبسڈی وغیرہ ہٹانے کی طرفداری کرتا ہے۔
عالمی ادارے کے اس مقصد کے باوجود ترقی پذیر ممالک اپنے کسانوں کےلئے رعایات کا مطالبہ کرتے ہیں، کیونکہ ان ممالک اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے تجارتی حالات میں بہت فرق ہے۔ افریقی ممالک کے ساتھ ساتھ بھارت بھی اس طرح کی رعایات کا مطالبہ کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لیکن امریکا کی قیادت میں ترقی یافتہ ممالک ہمیشہ اس طرح کی رعایات کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ امریکا اپنے کسانوں کو بڑے پیمانے پر سبسڈی فراہم کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود امریکا چاہتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک اس کے کسانوں کو بعض زرعی پیداوار حفاظتی محصولات (پروٹیکٹیو ٹیرف) پر فراہم کریں اور انہیں اپنے بازاروں تک رسائی بھی دیں۔ امریکا نے اس مقصد کے لئے ایک 'ٹیرف ریٹ کوٹہ اسکیم' وضع کی، جس کے تحت ترقی پذیر ممالک سے کہا گیا کہ وہ درآمدگی محصولات میں کمی کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کو زرعی پیداوار فروخت کرنے دیں۔
بھارت نے جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرف اینڈ ٹریڈ (جی اے ٹی ٹی) کی دفعہ 28 کی پاسداری کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کی بعض اشیاء کو اپنے بازاروں تک رسائی فراہم کی ہے۔ فی الوقت بھارت میں مکئی پر پچاس فیصد اور اناج پر چالیس سے پچاس فیصد تک درآمدگی محصولات لاگو ہیں۔ اس کا مقصد بھارتی بازاروں میں اناج کی ذخیرہ اندوزی کو تحفظ دینا ہے۔
اب جہاں تک رعایتی محصولات پر مکئی کی درآمدگی کی بھارت کی اجازت کا تعلق ہے، یہ اقدام اس وقت یعنی ایک ایسے وقت میں، جب مکئی کے کسان پہلے ہی بُرے حالات سے دوچار ہیں، ہرگز ایک صیح اقدام نہیں ہے۔ مکئی کی قیمتیں پہلے ہی گر گئی ہیں۔ قیمتوں کی اس گراوٹ کی وجہ سے بہار کے کسانوں کو فی ایکڑ زمین پر مکئی کی پیداوار میں بیس ہزار روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ اس کی وجوہات میں زیادہ پیداوار اور گوداموں کی سہولیات کی عدم دستیابی جیسی باتیں شامل ہیں۔ لشکری سنڈی ( فال آرمی وورم) کی وجہ سے بھی برصغیر میں مکئی کی پیداوار کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ بہار، کرناٹکا اور تلنگانہ میں بھی فصلوں کو لگنے والے ان کیڑوں کی شکایات موصول ہورہی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے پہلے ہی مکئی کے کسانوں میں اضطراب پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ وہ وافر مقدار میں ادویات کے چھڑکاو کے باوجود فصلوں کو لاحق اس بیماری سے چھٹکارا پانے میں ناکام ہورہے ہیں۔