اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

Muslims Voters Decisive in UP Assembly Election 2022: یوپی میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ہوگا؟

اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے ساتویں مرحلے کی پولنگ مکمل ہوچکی کی۔ اس میں ریاست کے 403 اسمبلی نشستوں پر امن طریقے سے انتخاب منعقد ہوا جس میں اوسط پولنگ 2017 کے پولنگ سے ڈھائی فیصد کم رہا۔ ریاست میں سال 2011 کی سروے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 19.3 فیصد ہے، جو ایک سو سے زائد سیٹوں پر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ تو آئیے جانتے ہیں کہ اس بارے کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کا کس پارٹی کو جائے گا اور ان کا وؤٹ کیا کردار ادا کرے گا -Muslims Voters Decisive in UP Assembly Election 2022۔ خورشید احمد کی رپورٹ

Muslims Voters Decisive in UP Assembly Election 2022
Muslims Voters Decisive in UP Assembly Election 2022

By

Published : Mar 8, 2022, 11:07 PM IST

Updated : Mar 9, 2022, 10:51 PM IST

اترپردیش کے 403 سیٹ پر اسمبلی انتخابات سات مرحلے میں مکمل ہوگیا ہے، ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 2011 کے سروے کے مطابق 38,483,967 ہے جو ایک سو سے زائد سیٹوں پر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔

تو آئیے جانتے ہیں کہ اس بار کے اسمبلی انتخابات میں مسلمان کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ اس سے پہلے یہ معلوم ہو کہ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 37 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور 15 فیصد ووٹ حاصل ہوئی تھی جب کہ بی ایس پی کو 80 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور سماج وادی پارٹی کو 224 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور واضح اکثریت سے حکومت سازی کی تھی۔

2017 میں سماجوادی پارٹی کو 47 اسمبلی نشستوں پر کامیابی ملی اور بی جے پی اور ان کے اتحادی پارٹیوں 403 میں 325 اسمبلی نشستوں پر 41 فیصد ووٹ کے ساتھ کامیابی ملی جب کہ بی ایس پی کو 19 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔

کانگریس پارٹی کو 2012 میں 28 پر کامیابی ملی تھی جب کہ 2017 میں سات نشستوں پر کامیابی سماجوادی پارٹی نے 2017 میں177 نشستوں کا نقصان ہوا جب کہ بی ایس پی کا 61 نشستوں کا نقصان ہوا تھا اور بی جے پی کو 265 نشستوں پر مزید کامیابی ساتھ 39 فیصد پہلی بار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

ریاست میں کل آبادی کا 20 فیصد مسلم آبادی ہے اور ایک طویل عرصے سےاتر پردیش میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن رہا ہے جس کے لیے سبھی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کی ووٹ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن 2014 کے پالیمانی انتخابات کے بعد اب تک کہ مسلمانوں کی ووٹ کی اہمیت جاتی رہی۔

لکھنو کے سینئر صحافی مسعود الحسن کا کہنا ہے کہ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ 2014 سے 19 تک اتر پردیش کی عوام ہندتوا کے ایجنڈے پر چلی گئی تھی جہاں پر ذات کا نام و نشان نہیں تھا،مسلمان کے ووٹ کی اسی وقت اہمیت رہی ہے جب ہندو قوم ذات کے نام پر تقسیم رہی ہے اور وہ صورتحال موجودہ انتخابات میں واپس دیکھنے کو مل رہی ہے لہذا اس انتخابات میں مسلمان ووٹ فیصلہ کن ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی ہمیشہ کم رہی ہے 2002 میں 64 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے جو اب تک کی سب سے زیادہ تعداد رہی ہے جبکہ 2017 میں صرف 23 مسلم امیدوار کو کامیابی ملی تھی جبکہ 143 اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں پر مسلم ابادی تقریبا 50 فیصد ہے یا اس سے بھی زیادہ لیکن مسلم ووٹوں کے تقسیم سے بی جے پی کو فائدہ ہوا تھا۔

موجودہ اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی اور اس کی حمایتی سیاسی جماعتیں جیسے راشٹریہ لوک دل سہیل دیوں بھارتی سماج پارٹی ،مہان دل،پرگتی شیل سماج پارٹی اور جن وادی پارٹی بی جے پی کو خاصا چیلنج کر رہی ہیں۔

اس اسمبلی انتخابات میں اکھلیش یادوں نے انتخابی مہم میں عوام میں یہ پیغام دینے کی پرزور کوشش کی ہے کہ ان کا مقابلہ سیدھے بی جے پی سے ہے ساتھ ہی بے روزگاری، مہنگائی، سرکاری ملازموں کی معاشی حالت پر جم کر تقریر کی ہے ان کے انتخابی منشور میں سرکاری ملازموں کی پنسل بحالی شامل ہے جس کا خاصا اثر نتیجے پر پڑنے کا امکان ہے۔
سماجوادی پارٹی نے اس انتخابات میں یادوں اور مسلم ووٹ سے آگے جانے کی کوشش کی ہے اور جاٹ او بی سی ،دلت کے علاوہ غیر یادو بھی اپنی طرف لانے کی کوشش کی ہے جس میں چھوٹی سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔

مغربی اترپردیش کے پہلے مرحلے میں ہوئے 58 اسمبلی نشستوں پر پولنگ ہوئی جس میں بی جے پی کو خاصا نقصان ہو سکتا ہے اس کی اہم وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ مسلمان اور جاٹ نے متحدہ طور پر سماجوادی اتحاد کوووٹ کیا ہے جس میں کسان مظاہرہ، مہنگائی، بے روزگاری جیسے اہم مدعے شامل تھے۔ بی جے پی ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جبکہ بی جے پی نے انتخابات سے ٹھیک قبل مذہب کے نام پر پلرائز کرنے کی کوشش ہوئی جس میں 80 بنام 20 فیصد کی لڑائی، متھورا کا معاملہ بھی ذکر ہوا حجاب، ابا جان، جناح جیسے بیانات آئے لیکن ان کو اہمیت نہیں ملی آخر مرحلے میں لاء اینڈ آرڈر اپنی فلاحی اسکیمذ پر زور رہا اور راشن تقسیم کو بھی انتخابی تشہیر میں شامل کیا جس میں وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ مودی کا نمک کھائے ہو اس بیان پر حریف سیاسی جماعتوں نے سخت رد عمل کا اظہارکیا جس کے بعد وزیر اعظم نے دوسری انتخابی ریلی میں کہا کہ ہم عوام کا نمک کھا رہے ہیں۔

2017 میں بی جے پی کو مغربی اترپردیش سے شاندار کامیابی ملی تھی اس کی اہم وجہ یہ مانا جارہا تھا کہ مظفر نگر کے فسادات میں جاٹ اور مسلم کا اتحاد ٹوٹا تھا جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ملا تھا لیکن موجودہ اسمبلی انتخابات میں تصویر بدلی ہوئی ہے۔

سینئر صحافی زید احمد فاروقی کا کہنا ہے کہ موجودہ اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے متحدہ طور پر سماجوادی اتحاد کو وؤٹ کیا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ اس سے قبل کے انتخابات میں مسلمان بی جے پی کے علاہ کامیاب ہونے والے امیدوار کو ووٹ کرتا تھا، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو لیکن موجودہ اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے امیدوار کے نام پر نہیں بلکہ کہ اکھلیش یادو اور سماج وادی پارٹی کے نام پر ووٹ کیا ہے۔
دوسری وجہ یہ رہی کہ بی جے پی صرف سماج وادی پارٹی اقتدار سے بے دخل کرسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان متحدہ طور پر وؤٹ کیا ہے۔

سیاسی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سماجوادی پارٹی نے مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے نہیں ٹکٹ دیا اور جن اسمبلی حلقے سے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ان میں سے بیشتر اسمبلی حلقوں میں اکھلیش یادو خود ریلی بھی نہیں کرنے گئے اور پوری اشہتاری مہم میں ان کے ساتھ کوئی مسلم چہرہ بھی ساتھ نہیں رہا اس سے قبل ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس سے قبل کے انتخابی مہم کے دوران اعظم خاں، مرحوم احمد حسن کے علاوہ دیگر مسلم چہرے شامل ہوا کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:


عبداللہ اعظم اگرچہ جیل سے باہر ہے لیکن اپنی اسمبلی کی نشست پر انتخابی مہم کے علاوہ کہیں بھی نظر نہیں آئے اس کی وجہ سیاسی ماہرین بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے تمام مسائل پر سمجھوتہ کرکے متحدہ طور پر سماجوادی پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ مسلم کے نام پر انتخابات پلرائز نہ ہو۔ ایک وجہ بھی بھی بتائی جارہی ہے کہ اکھلیش یادو نے رام گوپال یادو ،شیوپال یادو کو بھی ساتھ پورے انتخاب میں ساتھ نہیں لیا جس سے وہ اپنی شبیہ مضبوط دیکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

بہوجن سماج پارٹی نے 2017 میں مسلمانوں کو تقریبا 100 اسمبلی نشستوں پر امیدوار بنایا تھا اور موجودہ اسمبلی انتخابات میں بھی مسلمانوں کو تقریبا سو کے قریب امیدوار بنایا ہے لیکن اس سے مسلمانوں کے مابین یہ پیغام کیا گیا کہ بی ایس پی بی جے پی پی کو مسلمانوں کا ووٹ تقسیم کر فائدہ پہنچانا چاہ رہی ہے، اور انتخابات سے قبل بی ایس پی سے مسلم رہنماؤں کا علیحدگی اختیار کرنے سے بھی مسلم کے مابین اچھا پیغام نہیں تھا۔
مزید پڑھیں:


آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کی داخلے سے یہ تشویش ظاہر کی گئی کہ مسلم ووٹ کا تقسیم ہوگا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے سیاسی ماہرین مانتے ہیں کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کو 3 سے 5 اسمبلی نشستوں پر کامیابی مل سکتی ہے جن میں اعظم گڑھ کے مبارکپور سیٹ سے شاہ علم گڈو جمالی، اترولہ کے سیٹ سے ڈاکٹر عبدالمنان اور پیس پارٹی کے سربراہ جو اپنی پارٹی کے نشان پر امیدوار ہیں ڈاکٹر ایوب ایوب کو کامیابی مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسمبلی نشستوں پر کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کی وٹنگ فیصد میں بھی کمی رہنے کا امکان ہے۔

کانگریس پارٹی نے پورے زور و شور کے ساتھ انتخابی میدان میں حصہ لیا اور خواتین کے حقوق اور سیاست میں حصہ داری کے لیے انہوں نے منفرد نعرہ بھی دیا 'لڑکی ہوں لڑتی سکتی ہوں اور پورے ریاست نے پریانکا گاندھی کی قیادت میں میں انتخابی میدان میں رہیں۔ تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ کانگریس پارٹی کی ووٹنگ فیصد میں ضرور اضافہ ہو سکتا ہے ہے لیکن کامیاب امیدواروں کی تعداد میں اضافے کی امید کم ہے۔
مزید پڑھیں:


سیاسی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بی جے پی واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب نہیں ہوتی ہے تو مایاوتی کا سہارا لے سکتی ہے تاہم بی جے پی کے ساتھ جانے کے لیے مایاوتی راضی ہوں گی یا نہیں یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔

یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج کافی دلچسپ ہوںگے کس کو اکثریت ملتی ہے اور کس کو ناکامی ملتی ہے یہ انے والے انے دس مارچ کو ہی پتہ چلے گا لیکن قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے تجزیہ کر رہا ہے۔

Last Updated : Mar 9, 2022, 10:51 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details