اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

انسانی اسمگلنگ کی علت

سابق سپریم کورٹ جج ریٹائرڈ جسٹس مدن بی لوکر نے انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے بتایا کہ انسانی اسمگلنگ کو مکمل طور پر ختم تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اسے بڑی حد تک قابو کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہماری جیسی فلاحی ریاستوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ بچے اور خواتین کو اپنی زندگیاں عزت و آبرو کے ساتھ بسر کرسکیں اور کوئی بھی جنسی یا کسی دوسرے لحاظ سے ان کا استحصال نہ کرپائے۔

انسانی اسمگلنگ کی علت
انسانی اسمگلنگ کی علت

By

Published : Aug 3, 2020, 7:47 PM IST

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس ضمن میں مزید متحرک ہونا ہوگا تاکہ اسمگلروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کا تال میل ٹوٹ جائے۔ یہ بنیادی اقدامات اس عزم کے ساتھ کئے جانے چاہیں کہ انسانی اسمگلنگ کو مکمل طور پر روکنا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے چنگل سے بچائے جانے والے لوگوں کےلئے شلٹر ہومز ( پناہ گاہیں) قائم کی جانی چاہیں لیکن یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ ان پناہ گاہوں کی موثر نگرانی ہو تاکہ ان کے اندر متاثرین کے استحصال کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے، جیسا کہ مظفر پور میں قائم پناہ گاہ میں ہوتا رہا تھا، جسے سیاسی سرپرستی میں سرکاری فنڈنگ کے ذریعے چلایا جا رہا تھا ۔

انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ پہلی بار سال 1991ء میں منظر عام پر آگیا تھا، جب ایک ائر ہوسٹس امریتا اہلووالیا نے حیدر آباد سے دہلی جانے والی ایک فلائٹ میں ایک دس سالہ بچی کو مسلسل سسکیاں لیکر روتے ہوئے دیکھا۔ پوچھے جانے پر اس بچی نے ائر ہوسٹس کو بتایا کہ اس کی شادی ایک ساٹھ ستر سال کے شخص کے ساتھ کی گئی ہے اور وہ اسے کسی خلیجی ملک میں لے جارہا ہے۔ ائر ہوسٹس نے یہ بات یقینی بنائی کہ اس بچی کو ملک سے باہر نہ لے جایا جاسکے اور اس کے خود ساختہ شوہر کو ایک کمسن بچی کا استحصال کرنے پر سزا ملے۔ یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ شخص بعد ازاں جعلی پاسپورٹ کے ذریعے فرار ہوجانے میں کامیاب ہوگیا۔

اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد چار سال سے دس سال کی عمر کے لڑکوں کو خلیجی ممالک کے ارب پتی لوگوں کے ہاتھوں فروخت کئے جانے کا معاملہ منظر عام پر آگیا۔ ان لڑکوں کو یہاں سے لے جاکر اونٹوں کی ریس میں بطور اونٹ سواروں کے استعمال کیا جاتا تھا۔ ریس کے دوران یہ بچے خوف کے مارے جتنا زیادہ چیختے چلاتے تھے، اونٹ اسی شدت کی تیزی کے ساتھ بھاگنے لگتے تھے۔ ان میں سے جو بچے اونٹ کی پیٹھ پر ٹھیک طرح سے باندھے نہیں گئے ہوتے تھے، وہ اکثر گر بھی جاتے تھے اور پھر پیچھے آنے والے دیگر اونٹوں کے پیروں تلے روندے جاتے تھے۔ جو بچے اس جان لیوا کھیل میں بچ جاتے تھے، وہ مسلسل اسی کام کے لئے استعمال کئے جاتے تھے اور شاید اُن کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا تھا۔

حال ہی میں اینٹوں کے بٹھوں پر ٹھیکداروں کی جانب سے مزدوروں بشمول خواتین اور بچوں کے استحصال کا معاملہ منظر عام پر آگیا۔ انہیں عملاً غلاموں کی طرح رکھا گیا تھا اور ان سے غیر انسانی ماحول میں برائے نام اُجرت پر گھنٹوں تک کام کرایا جاتا تھا۔ سال 2013ء میں کچھ مزدوروں نے ٹھیکدار کے چنگل سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ دوبارہ پکڑے گئے اور ان کا ایک پاؤں یا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

چند دن قبل ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا کہ تامل ناڈو میں ایک نوجوان قبائلی لڑکی مانسی باریہا، جسے اینٹوں کے بٹھے پر فی ہفتہ اڑھائی سو روپے کے عوض کام کرایا جاتا تھا، نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو منظر عام پر لایا۔ دراصل جب مانسی اور اس کے ساتھ کام کرنے والے دیگر مزدوروں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی، تو ٹھیکیدار اور اس کے غنڈوں نے بے دردی سے ان کی مار پیٹ کی لیکن مانسی نے اس واقعہ کی ویڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لائی۔ جب یہ ویڈیو وائرل ہوا تو انتظامیہ متحرک ہوگیا اور اس طرح سے اینٹوں کے بٹھوں پر کام کرنے والے چھ ہزار مزدوروں کو بچالیا گیا۔

اس طرح کے بعض واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ڈُنیا بھر میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ کے متاثرین کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے متاثرین میں ستر فیصد خواتین اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی اسمگلنگ جنسی زیادتی کے لئے ہی کی جاتی ہوگی۔ یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ بھارت میں خواتین اور بچوں کی انسانی اسمگلنگ کے رونما ہونے والے واقعات کم ہیں۔ خواہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں یہاں رونما ہونے والی انسانی اسمگلنگ کا تناسب کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، یہ بہرحال ایک ناقابل قبول بات ہے۔ جنسی استحصال کے ان متاثرین میں بعض انتہائی غریب ہوتے ہیں انہوں نے قرضے حاصل کئے ہوتے ہیں، جو وہ واپس ادا نہیں کرپاتے ہیں۔ ایسی بھی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جب غربت کی وجہ سے خود والدین اپنے بچوں کو فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ ایسی بھی مثالیں ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد اُنہیں انسانی سمگلنگ کے مافیا کو فروخت کیا جاتا ہے۔

انسانی اسمگلنگ کی کئی دوسری شکلیں بھی ہیں لیکن ان کے مختلف دیگر نام دیئے گئے ہیں۔ جیسے کہ چائلڈ میرج (بچوں کی شادی) اور چائلڈ لیبر ( بچہ مزدوری) بھی اصل میں انسانی سمگلنگ کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہان تک کہ میرا ماننا ہے کہ بانڈڈ لیبر (جبری مشقت) بھی غلامی سے کوئی کمتر چیز نہیں ہے۔ جدید دور میں انسانی اسمگلنگ کی ایک شکل سائبر ٹریفکنگ ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوان لڑکیوں کو اکسایا اور بہکایا جاتا ہے اور پھر انہیں جسم فروشی کے دھندے میں دھکیلا جاتا ہے۔ چونکہ یہ سارا کام انٹرنیٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے، اس لئے متاثرین یہ دھندہ کرنے والے ایجنٹوں اور ٹھیکداروں کی شناخت بھی نہیں کر پاتے ہیں۔ اس صورتحال میں اسمگلروں کو پکڑنا اور انہیں سزا دلانا بہت مشکل ہے۔

حال ہی میں دہلی میں ایک خاتون ٹریفکر (انسانی سمگلر) کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ اس دھندے میں بعض اثرو رسوخ رکھنے والے اور بعض عہدیدار بھی ملوث ہیں۔ اس خاتون کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ دہلی میں سال 2000ء سے یہ کام کرتی رہی تھیں اور وہ تقریباً بیس سال تک اپنے ناپاک دھندے کو اس لئے آسانی سے جاری رکھ پائی تھیں کیونکہ یا تو اس کے اس کام کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا تھا یا پھر اسکے اثرو رسوخ کی وجہ سے اسے روکنا محال تھا۔

اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر انسانی اسمگلنگ کے بارے میں جانکاری عام کرنے اور اس کے خلاف اقدامات کرنے سے متعلق ’بلیو ہاٹ کمپین‘ نام سے ایک عالمی مہم شروع کر رکھی ہے۔ چند دن قبل انسانی اسمگلنگ سے متعلق عالمی دن منایا گیا اور اس موقعے پر مجھے حیدر آباد میں موجود ایک غیر سرکاری رضا کار تنظیم پر اجوالا کے اہتمام سے منعقدہ ایک ویب نار میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ اس فورم پر تین متاثرین، جو بچالی گئی ہیں، انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں سے ایک کو اس کی ماں نے جسم فروشی کا دھندہ کرنے والوں کے ہاتھوں بیچ دیا تھا۔ دوسری لڑکی کو اسکی ایک دوست نے بہلایا پھسلایا تھا اور تیسری لڑکی کو اُس سکول، جہاں وہ پڑھتی تھیں، کے ملازمین نے حیدر آباد سے دہلی لاکر ایک ریڈ لائٹ ایریا میں بیچ دیا تھا۔ اسی طرح ملک کی چودہ مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والی متاثرین نے بھی اپنی آبیتی سنائی۔ ان سب کی روداد سن کر شرکاء کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ ان سب کی کہانیاں دل دہلا دینے والی تھیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم ایک سماج کی حیثیت سے انسانی اسمگلنگ کو روکنے میں کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ جہاں تک اس ضمن میں موجودہ صورتحال کا تعلق ہے، یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انسانی اسمگلنگ کو مکمل طور پر ختم تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اسے بڑی حد تک قابو کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہماری جیسی فلاحی ریاستوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ بچے اور خواتین کو اپنی زندگیاں عزت و آبرو کے ساتھ بسر کرسکیں اور کوئی بھی جنسی یا کسی دوسرے لحاظ سے ان کا استحصال نہ کرپائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس ضمن میں مزید متحرک ہونا ہوگا تاکہ اسمگلروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کا تال میل ٹوٹ جائے۔ یہ بنیادی اقدامات اس عزم کے ساتھ کئے جانے چاہیں کہ انسانی اسمگلنگ کو مکمل طور پر روکنا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے چنگل سے بچائے جانے والے لوگوں کےلئے شلٹر ہومز ( پناہ گاہیں) قائم کی جانی چاہیں لیکن یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ ان پناہ گاہوں کی موثر نگرانی ہو تاکہ ان کے اندر متاثرین کے استحصال کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے، جیسا کہ مظفر پور میں قائم پناہ گاہ میں ہوتا رہا تھا، جسے سیاسی سرپرستی میں سرکاری فنڈنگ کے ذریعے چلایا جا رہا تھا ۔

اس ضمن میں سماج کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ میرا ماننا ہے کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ہوشیار رہیں اور ہم بچہ مزدوری، جبری مشقت اور دیگر اقسام کی انسانی ٹریفکنگ، خواہ اس کا تعلق جنسی زیادہ سے ہو یا نہ ہو، روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جب تک نہ ہم اجتماعی طور پر اس ہولناک برائی کے لئے متحرک نہ ہوجائیں، اس کی وجہ سے بچے اور خواتین متاثر ہوتی رہیں گی۔ ہم اس سب کو خاموش تماشائیوں کی طرح دیکھتے رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

(جسٹس (ریٹائرڈ) مدن بی لوکُر، سابق سپریم کورٹ جج)

ABOUT THE AUTHOR

...view details