قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس ضمن میں مزید متحرک ہونا ہوگا تاکہ اسمگلروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کا تال میل ٹوٹ جائے۔ یہ بنیادی اقدامات اس عزم کے ساتھ کئے جانے چاہیں کہ انسانی اسمگلنگ کو مکمل طور پر روکنا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے چنگل سے بچائے جانے والے لوگوں کےلئے شلٹر ہومز ( پناہ گاہیں) قائم کی جانی چاہیں لیکن یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ ان پناہ گاہوں کی موثر نگرانی ہو تاکہ ان کے اندر متاثرین کے استحصال کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے، جیسا کہ مظفر پور میں قائم پناہ گاہ میں ہوتا رہا تھا، جسے سیاسی سرپرستی میں سرکاری فنڈنگ کے ذریعے چلایا جا رہا تھا ۔
انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ پہلی بار سال 1991ء میں منظر عام پر آگیا تھا، جب ایک ائر ہوسٹس امریتا اہلووالیا نے حیدر آباد سے دہلی جانے والی ایک فلائٹ میں ایک دس سالہ بچی کو مسلسل سسکیاں لیکر روتے ہوئے دیکھا۔ پوچھے جانے پر اس بچی نے ائر ہوسٹس کو بتایا کہ اس کی شادی ایک ساٹھ ستر سال کے شخص کے ساتھ کی گئی ہے اور وہ اسے کسی خلیجی ملک میں لے جارہا ہے۔ ائر ہوسٹس نے یہ بات یقینی بنائی کہ اس بچی کو ملک سے باہر نہ لے جایا جاسکے اور اس کے خود ساختہ شوہر کو ایک کمسن بچی کا استحصال کرنے پر سزا ملے۔ یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ شخص بعد ازاں جعلی پاسپورٹ کے ذریعے فرار ہوجانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد چار سال سے دس سال کی عمر کے لڑکوں کو خلیجی ممالک کے ارب پتی لوگوں کے ہاتھوں فروخت کئے جانے کا معاملہ منظر عام پر آگیا۔ ان لڑکوں کو یہاں سے لے جاکر اونٹوں کی ریس میں بطور اونٹ سواروں کے استعمال کیا جاتا تھا۔ ریس کے دوران یہ بچے خوف کے مارے جتنا زیادہ چیختے چلاتے تھے، اونٹ اسی شدت کی تیزی کے ساتھ بھاگنے لگتے تھے۔ ان میں سے جو بچے اونٹ کی پیٹھ پر ٹھیک طرح سے باندھے نہیں گئے ہوتے تھے، وہ اکثر گر بھی جاتے تھے اور پھر پیچھے آنے والے دیگر اونٹوں کے پیروں تلے روندے جاتے تھے۔ جو بچے اس جان لیوا کھیل میں بچ جاتے تھے، وہ مسلسل اسی کام کے لئے استعمال کئے جاتے تھے اور شاید اُن کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا تھا۔
حال ہی میں اینٹوں کے بٹھوں پر ٹھیکداروں کی جانب سے مزدوروں بشمول خواتین اور بچوں کے استحصال کا معاملہ منظر عام پر آگیا۔ انہیں عملاً غلاموں کی طرح رکھا گیا تھا اور ان سے غیر انسانی ماحول میں برائے نام اُجرت پر گھنٹوں تک کام کرایا جاتا تھا۔ سال 2013ء میں کچھ مزدوروں نے ٹھیکدار کے چنگل سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ دوبارہ پکڑے گئے اور ان کا ایک پاؤں یا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
چند دن قبل ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا کہ تامل ناڈو میں ایک نوجوان قبائلی لڑکی مانسی باریہا، جسے اینٹوں کے بٹھے پر فی ہفتہ اڑھائی سو روپے کے عوض کام کرایا جاتا تھا، نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو منظر عام پر لایا۔ دراصل جب مانسی اور اس کے ساتھ کام کرنے والے دیگر مزدوروں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی، تو ٹھیکیدار اور اس کے غنڈوں نے بے دردی سے ان کی مار پیٹ کی لیکن مانسی نے اس واقعہ کی ویڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لائی۔ جب یہ ویڈیو وائرل ہوا تو انتظامیہ متحرک ہوگیا اور اس طرح سے اینٹوں کے بٹھوں پر کام کرنے والے چھ ہزار مزدوروں کو بچالیا گیا۔
اس طرح کے بعض واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ڈُنیا بھر میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ کے متاثرین کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے متاثرین میں ستر فیصد خواتین اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی اسمگلنگ جنسی زیادتی کے لئے ہی کی جاتی ہوگی۔ یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ بھارت میں خواتین اور بچوں کی انسانی اسمگلنگ کے رونما ہونے والے واقعات کم ہیں۔ خواہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں یہاں رونما ہونے والی انسانی اسمگلنگ کا تناسب کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، یہ بہرحال ایک ناقابل قبول بات ہے۔ جنسی استحصال کے ان متاثرین میں بعض انتہائی غریب ہوتے ہیں انہوں نے قرضے حاصل کئے ہوتے ہیں، جو وہ واپس ادا نہیں کرپاتے ہیں۔ ایسی بھی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جب غربت کی وجہ سے خود والدین اپنے بچوں کو فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ ایسی بھی مثالیں ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد اُنہیں انسانی سمگلنگ کے مافیا کو فروخت کیا جاتا ہے۔