اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

Presidential Candidate: شرد پوار نے صدارتی امیدوار سے اپنا نام واپس کیوں لیا؟

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی اور این سی پی کے سربراہ شرد پوار کے درمیان اچھے تعلقات ہیں اور صدارتی امیدوارPresidential Candidate بن کر اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز ممتا بنرجی نے اپوزیشن کی جانب سے صدارتی امیدوار کے لیے شرد پوار کا نام تجویز کیا تھا لیکن انھوں نے اس تجویز کو قبول کرنے سے منع کردیا تھا۔

وزیراعظم نریندرمودی اور این سی پی کے سربراہ شرد پوار
وزیراعظم نریندرمودی اور این سی پی کے سربراہ شرد پوار

By

Published : Jun 16, 2022, 9:09 PM IST

ممبئی:مہاراشٹر کے سینئر لیڈر اور نیشنل کانگریس پارٹی ’این سی پی‘ کے سربراہ شرد پوار نے 18جولائی کو ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات Presidential election کی دوڑ سے خود کو الگ کر لیا، اس کے باوجود بدھ کو ٹی ایم سی لیڈر ممتا بنرجی کی طرف سے صدارتی امیدوار کے انتخاب کے لیے بلائی گئی میٹنگ میں شرکت کی۔ اس میٹنگ میں شرد پوار کو دوبارہ صدر بننے کی پیشکش کی مگر انہوں نے دوبارہ اسے مسترد کر دیا۔

صدارتی انتخاب کے لیے نامزدگی کا عمل بدھ سے شروع ہو گیا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ شرد پوار ایک اور میٹنگ بلانے والے ہیں۔ جس کا انعقاد ممبئی میں20 سے 21 جون کو ہوسکتی ہے۔ ایسے میں ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ جب پوار یہ الیکشن نہیں لڑنا چاہتے تو پھر میٹنگ بلانے کا کیا مقصد ہے؟ شرد پوار نے کہا تھا کہ میں اپوزیشن کی طرف سے صدارتی امیدوار نہیں ہوں۔ انہوں نے یہ بات پیر کو منعقدہ این سی پی کی کابینہ کی میٹنگ کے دوران کہی۔

شرد پوار کے بیان سے اپوزیشن میں مایوسی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے، جبکہ کانگریس نے بھی شرد پوار کی صدارتی امیدواری Presidential Candidate کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی، این سی پی، دراوڑ منیترا کجھگم (ڈی ایم کے)، شیو سینا، راشٹریہ جنتا دل، نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے قائدین نے ممتا کی میٹنگ میں شرکت کی وہیں عام آدمی پارٹی، تلنگانہ راشٹریہ سمیتی، شرومنی اکالی دل اور بیجو جنتا دل کے قائدین نے میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔

میٹنگ کے بعد ڈی ایم کے لیڈر ٹی آر بالو نے کہاکہ تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے شرد پوار سے صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا، جبکہ بی جے پی نے صدارتی امیدوار کے نام پر اتفاق رائے کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کیا ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بدھ کو کانگریس لیڈر ملکا ارجن کھڑگے، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو سے بات کی۔

یہ بھی پڑھیں: Farooq Abdullah Name Proposed for Presidential Candidate: فاروق عبداللہ کا نام صدارتی امیدوار کے لیے تجویز

ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن لیڈر این ڈی اے کی جانب سے صدارتی امیدوار کا نام جاننا چاہتے تھے۔ ان لیڈروں کے علاوہ راج ناتھ سنگھ نے اڑیشہ کے وزیراعلیٰ نوین پٹنائک اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے بھی بات کی۔ کھڑگے کے مطابق راجناتھ سنگھ نے مجھے فون پر صدارتی انتخاب کے بارے میں بات کی، لیکن جب اس تجویز کے بارے میں پوچھا گیا تو کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر اپوزیشن کوئی غیر متنازعہ نام لے کر آتی ہے تو کیا حکومت اسے قبول کرے گی؟سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ جب پوار صاحب کسی بات کے لئے ’ہاں‘ کہتے ہیں تو اس کا زیادہ تر مطلب ’نہیں‘ ہوتا ہے اور جب وہ ’نہیں‘ کہتے ہیں تو اس کا مطلب ’ہاں‘ ہوتا ہے۔

قیاس کیا جارہا ہے کہ شاید شردپوار صدر بننا ہی نہیں چاہتے کیونکہ وہ عوامی رہنما ہیں وہ سرگرم سیاست میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب شرد پوار نے خود کو صدارتی انتخاب سے الگ کیا ہو۔ اس سے پہلے بھی شرد پوار گزشتہ کئی برسوں سے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کی بات کرتے رہے ہیں۔ کئی سال پہلے پوار نے بھی کہا تھا کہ میں صدارت کی دوڑ میں شامل نہیں ہوں۔ میں سیاست سے اتنی جلدی ریٹائر نہیں ہونا چاہتا۔

انہوں نے کہا تھا کہ صدر بن گئے تو اچھی کوٹھی مل جاتی ہے لیکن لوگوں سے ملنے کا موقع نہیں ملتا۔ شرد پوار اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدارتی انتخاب جیتنا اتنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ اپوزیشن کے پاس جیت کے لیے ضروری اعداد و شمار نہیں ہیں۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کی طاقت بہت کم ہے۔ تاہم راجیہ سبھا اور ودھان سبھا میں صورتحال ٹھیک ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن میں بھی اتحاد نہیں ہے۔ اس لیے وہ یہ خطرہ مول لینے سے کتراتے ہیں۔ ساتھ ہی سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ نریندر مودی اور شرد پوار کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ایسے میں وہ این ڈی اے امیدوار کے خلاف مقابلہ کرکے اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔

کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ پوار آنے والے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے مرکزی کردار میں ہیں تاکہ بی جے پی کو اس الیکشن میں تیسرے محاذ کے ذریعے سخت مقابلہ دیا جاسکے۔ اس کے علاوہ خود ان کی پارٹی میں بھی کئی حصے ہیں۔ اگر وہ دہلی میں سرگرم ہیں تو پارٹی یہاں بکھر سکتی ہے۔ جس کا سیدھا اثر لوک سبھا انتخابات میں پڑے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details