ایک طرف یوکرین میں روسی حملے ہورہے ہیں تو دوسری طرف تائیوان پر چینی حملے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ جنگ کے خطرے کے پیش نظر دنیا بھر کی ایٹمی طاقتوں کے مابین لفظی جنگ بھی شروع ہو گئی ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کا کہنا ہے کہ اگر کوئی تنازعہ ہوا تو جوہری طاقت سے مالا مال نو میں سے پانچ ممالک براہ راست ملوث ہوں گے۔ سپری نے جوہری خطرے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے جوہری ہتھیاروں سے مالا مال ممالک میں جوہری ہتھیاروں nuclear weapons کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) میں ویپنس آف ماس ڈسٹرکشن پروگرام کے ایسوسی ایٹ سینئر فیلو اور فیڈریشن میں نیوکلیئر انفارمیشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ہنس ایم کرسٹینسن نے کہا کہ سرد جنگ کے بعد ممالک نے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن جنگ جیسی صورتحال کے باعث اس مہم کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ SIPRI دنیا کے معروف تھنک ٹینکس میں سے ایک ہے، جو ہتھیاروں کی تجارت اور ان کے پھیلاؤ کے علاوہ تخفیف اسلحہ اور بین الاقوامی سلامتی کی موجودہ صورتحال کا مطالعہ اور تجزیہ کرتا ہے۔
سِپری SIPRI کی ایک رپورٹ SIPRI Report 2022 میں پیر کو کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جمع کیے گئے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔گزشتہ ایک سال میں 375 ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کی گئی۔جنوری 2021 سے جنوری 2022 کے عرصے میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد 13,080 سے کم ہو کر 12,705 ہوگئی، تاہم آنے والی دہائی میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ اور روس کے جوہری ہتھیاروں میں کمی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پرانے ہتھیاروں کو تباہ کر دیا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن پروگرام کے ڈائریکٹر ولفریڈ وان نے کہا کہ تمام جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک ایک بار پھر نئے ہتھیاروں کو تیار یا اپ گریڈ کر رہے ہیں۔ مختلف مسائل پر ان ممالک کے درمیان بیان بازی بھی تیز ہو گئی ہے۔ جوہری ہتھیار ان کی فوجی حکمت عملیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک رجحان ہے۔