اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے صبح سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل پر رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹ ایکٹ لگانے کے لیے کوئی انکوائری یا انوسٹی گیشن تو ہونی چاہیے۔ انہوں نے استفسار کیا ہے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں کہ ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار جسٹس (ریٹائرڈ) جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے دلائل کا آغاز کیا۔ ان کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں لیکن کیا طریقہ کار ہوگا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھجوائے جائیں گے۔
آج صبح سماعت کا آغاز ہوا تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے تحریری دلائل جمع کراتے ہوئے کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، انھوں نے کہا کہ اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا، یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے۔ فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں، انسداد دہشتگردی کے ٹرائل کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا مکمل حق ہوتا ہے، سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں موجود ہیں، میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ سویلینز کا کن حالات میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ 21 ویں ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ ٹرائل کے لیے آرمی ایکٹ کے ساتھ تعلق ہونا لازمی ہے لیکن ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے پھر استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔