واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن عام طور پر عقلمند اور ذہین دکھتے ہیں۔ لیکن انھوں نے یوکرین پر قبضہ کرنے کے متعلق اپنی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا۔ بائیڈن نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں پوتن نے غلط حساب کتاب کیا، اس نے سوچا کہ کیف میں کھلے بازوؤں سے ان کا استقبال کیا جائے گا جو کہ پوتن نے بالکل غلط اندازہ لگایا۔ Joe Biden on Vladimir Putin
سی این این ٹیلی ویژن کے اینکر جیک ٹیپر نے بائیڈن کو روس کے معاملے میں جوہری قیامت کے الفاظ پر مبنی، سابقہ بیان کی یاد دہانی کروائی۔ سابقہ بیان کے حوالے سے ٹیپر نے سوال کیا کہ کیا آپ کو حقیقتاً یقین ہے کہ پوتن جوہری اسلحہ استعمال کریں گے؟ جس کے جواب میں بائیڈن نے اپنے سابقہ بیان سے بالکل مختلف طرزِ فکر کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ پوتن ایسا کریں گے لیکن دنیا جوہری طاقت کے مالک اور عالمی لیڈر کی طرف سے یوکرین میں جوہری اسلحے کے استعمال کے امکان سے متعلق بیان کو غیر ذمہ دارانہ خیال کرتا ہوں۔
بائیڈن نے جوہری اسلحے کے استعمال کی صورت میں ایک عالمی جنگ کی وارننگ دی اور کہا ہے کہ یوکرین میں جوہری اسلحے کا استعمال ناپسندیدہ نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ تاہم ٹیپر کے اس سوال کے جواب میں صدر بائیڈن نے خاموشی اختیار کی کہ روس کے جوہری اسلحہ استعمال کرنے کی صورت میں نیٹو اور پینٹاگون کا جواب کیا ہوگا''۔ جی ٹوئنٹی اجلاس کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بات چیت کے سوال پر بائیڈن نے کہا کہ میرا ان سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ جی 20 میں مجھ سے باسکٹ بال اسٹار برٹنی گرائنرکی رہائی کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہوں، تو میں ان سے ملاقات کروں گا۔ امریکی باسکٹ بال اسٹار برٹنی گرائنر منشیات کے کیس میں مہینوں سے روسی حراست میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Russia Ukraine War بائیڈن کا زیلنسکی سے جدید دفاعی نظام دینے کا وعدہ
جی 20 دنیا کی بڑی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کا ایک بین الحکومتی گروپ ہے۔ اس میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جمہوریہ کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین (EU) شامل ہیں۔ یہ G20 ممالک مجموعی طور پر عالمی جی ڈی پی کا 85 فیصد، بین الاقوامی تجارت کا 75 فیصد اور دنیا کی دو تہائی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس سال یہ سربراہی اجلاس نومبر میں انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہونے والا ہے۔