فلسطینی ہلال احمر ایمرجنسی سروس نے کہا کہ مسجد الاقصیٰ Al-Aqsa Mosque پر کئی ہفتوں سے جاری تشدد کے بعد، مقبوضہ مشرقی یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ایک بار پھر اسرائیلی پولیس اور فورسز کے چھاپے میں کم از کم 42 فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں۔ Israeli Forces Raid at Al-Aqsa Mosque یہ کشیدگی مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے آخری جمعہ کو سامنے آئی۔ ہلال احمر نے کہا کہ زخمی ہونے والوں میں سے زیادہ تر کو جسم کے اوپری حصے میں چوٹیں آئی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ 22 افراد کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔
اسرائیلی پولیس نے کہا کہ فورسز مسجد الاقصیٰ میں اس وقت داخل ہوئیں جب لوگوں نے ویسٹرن وال (یہودیوں کا مقدس مقام) کی جانب جانے والے گیٹ پر پتھراؤ اور آتشبازی کی، ۔عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ پولیس نے کہا کہ تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، دو کو پتھر پھینکنے کے الزام میں اور ایک کو ہجوم کو اکسانے کے الزام میں۔ پولیس نے کہا، "گزشتہ ایک گھنٹے سے، مقام پر سکون ہے اور مسلمان نمازی بحفاظت کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہے ہیں۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران، اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام الاقصیٰ کے احاطے میں اسرائیلی دراندازی میں تقریباً 300 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں داخل ہونے والے اسرائیلی آباد کاروں کی تعداد میں حالیہ اضافے سے مسلمان رہنما ناراض ہیں۔ احاطے میں صرف مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت ہے، لیکن، یروشلم اسلامی وقف کے مطابق، تقریباً 3,700 اسرائیلی آباد کار گذشتہ ہفتے کے دوران مسجد اقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کے تہوار کے موقع پر داخل ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
Israeli Forces Raid Al-Aqsa Mosque: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی، عالمی برادری کی مذمت
Israel–Turkey Relations: ’اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں گے‘
زیادہ تر آرتھوڈوکس یہودی احاطے کے اندر نماز نہیں پڑھتے، وہ یہ مانتے ہیں کہ یہ مذہبی طور پر قابل قبول نہیں ہے، اور یروشلم کے چیف ربینیٹ نے بھی وہاں نماز سے منع کیا ہے۔ تاہم، اسرائیلی مذہبی قوم پرستوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اس جگہ پر یہودی مندر کی تعمیر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس مطالبے نے بہت سے فلسطینیوں کو اس خوف میں مبتلا کر دیا ہے کہ اسرائیل اس کمپاؤنڈ کو تقسیم کرنے اور ایک ایسی جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جہاں یہودی عبادت کر سکیں۔ کشیدگی کو کم کرنے کی بظاہر کوشش میں، اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لاپڈ نے زور دیا ہے کہ حکومت کمپاؤنڈ میں جمود کے لیے پرعزم ہے، اور اسے تقسیم کرنے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔
تاہم، مقبوضہ مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کو اب بھی الاقصیٰ کے احاطے میں جانے پر سخت پابندیوں کا سامنا ہے، جبکہ یہ مقام فلسطینیوں کے لیے قومی علامت ہے، سال کے بیشتر حصے میں مکمل پابندی ہوتی ہے صرف رمضان کے دوران مخصوص عمر کے افراد کو ہی جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ درحقیقت، اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے فلسطینی جو مشرقی یروشلم سے صرف میلوں کے فاصلے پر رہتے ہیں، کبھی بھی مسجد الاقصیٰ میں نہیں جاسکتے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ضروری ہیں۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران الاقصیٰ پر اسرائیلی پولیس کی دراندازی میں 250 سے زائد فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔اسرائیل کے زیر قبضہ مشرقی یروشلم میں تشدد نے ایک اور مسلح تصادم کا خدشہ پیدا کر دیا ہے جیسا کہ گزشتہ سال غزہ پر 11 روزہ اسرائیلی حملے کی طرح مسجد میں اسی طرح کی بدامنی کی وجہ سے ہوا تھا۔ حالیہ ہفتوں میں غزہ سے اسرائیل کی طرف راکٹ فائر کیے گئے ہیں اور اسرائیلی جوابی کارروائیاں بھی ہوئی ہیں، لیکن دونوں طرف سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔