یروشلم: اسرائیلی فوج نے پیر کو تصدیق کی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی سے اپنے ہزاروں فوجیوں کو واپس بلا رہا ہے۔ اسرائیل کا یہ ایک ایسا قدم ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ایک طویل شدت کی جنگ کے بعد حماس کے خلاف کم شدت کی لڑائی کا اسرائیل نے فیصلہ کیا ہے۔ منصوبہ بند فوجیوں کے انخلا کی تصدیق اسی دن ہوئی ہے جب اسرائیل کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے متنازعہ عدالتی ترمیم کے منصوبے کے ایک اہم جز کو ختم کر دیا۔
اگرچہ یہ منصوبہ جنگی کوششوں سے براہِ راست منسلک نہیں ہے، لیکن یہ اسرائیل کے اندر تقسیم کا ذریعہ ضرور بنا تھا۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس داخلی مسئلہ سے فوج نمٹ رہی تھی کہ اچانک 7 اکتوبر کو حماس کے مسلح جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ سیاست دانوں نے ملک میں اس تقسیم کو دوبارہ بھڑکانے اور قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے کے خلاف خبردار کیا ہے۔
اپنے اعلان میں فوج نے کہا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں پانچ بریگیڈز یا کئی ہزار فوجیوں کو غزہ سے واپس بلایا جائے گا۔ اس دوران فوجیوں کو یا تو کچھ مزید تربیت دی جائے گی یا انھیں آرام دیا جائے گا۔ اس دوران ہنگامی حالات میں جنگ کے لیے بلائے گئے ریزرو فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ جنگ کے دوران ریزرو فوجیوں کو اپنی ملازمتوں پر جانے، اپنے کاروبار چلانے یا یونیورسٹی کی تعلیم پر واپس آنے سے روک دیا تھا جس سے اسرائیل کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ فوج کے چیف ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے یہ نہیں بتایا کہ آیا کچھ فوجیوں کی واپسی جنگ کے نئے مرحلے کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے اتوار کو دیر گئے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جنگ کے مقاصد کے لیے طویل لڑائی کی ضرورت ہے اور ہم اسی کے مطابق تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فوج کا یہ اقدام اسرائیلی رہنماؤں کے کم شدت کی مہم کے لیے وضع کیے گئے منصوبوں کے مطابق ہے۔