عراقی قانون سازوں نے جمعرات کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور کاروباری تعلقات سمیت کسی بھی قسم کے تعلقات کو جرم قرار دینے والا بل منظور کیا ہے۔ Iraqi Lawmakers on Ties with Israel پارلیمنٹ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون عراقی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ملک کے بااثر شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر، جن کی جماعت نے گزشتہ سال عراق کے پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں، نے عراقیوں سے اس عظیم کامیابی پر شکرانے کے نوافل پڑھنے اور جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکلنے کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں سینکڑوں افراد وسطی بغداد میں جمع ہوئے اور اسرائیل مخالف نعرے لگائے۔
اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والی انجمنوں اور افراد کو اس جرم کی پاداش میں سزائے موت تک دی جا سکے گی۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس قانون کو کیسے نافذ کیا جائے گا کیونکہ عراق نے 1948 میں ملک کے قیام کے بعد سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس قانون سازی میں عراق میں کام کرنے والی کمپنیوں پر بھی خطرات منڈالنے لگا ہے کیونکہ ان کے اسرائیلی تعلقات بھی اس بل کی خلاف ورزی میں شامل ہونگے۔
یہ بھی پڑھیں:
Iraqi migrants: لیبیا سے لوٹے عراقی مہاجرین کی درد بھری داستان
Israel–Turkey Relations: ’اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں گے‘
عراق میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر محمد کاظم الصادق نے ٹویٹ کرکے عراقی پارلیمنٹ کے اس اقدام کو اہم قرار دیا اور اس کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مبارکباد پیش کی۔ وہیں حماس نے بھی ایک بیان میں عراقی پارلیمنٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے عراقی عوام کا فلسطین سے متعلق تاریخی اور حق پر مبنی موقف کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
جبکہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان لیور حیات نے عراقی پارلیمان کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات معمول پر آنے سے خطے کے لوگوں کو استحکام اور خوشحالی ملے گی لیکن جو رہنما نفرت اور اشتعال انگیزی کا راستہ اختیار کریں گے اس کا نقصان ان کے اپنے لوگوں کو ہوگا۔ وہیں امریکہ نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کو خطرے میں ڈالنے اور دشمنی کے ماحول کو فروغ دینے کے علاوہ، یہ قانون سازی عراق کے پڑوسیوں کی طرف سے پل تعمیر کرنے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے، پورے خطے میں لوگوں کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کے ذریعے کی گئی پیش رفت کے بالکل برعکس ہے۔