غزہ: غزہ میں 72 دنوں سے جاری اسرائیل کی اندھادھند بمباری اور گولہ باری میں اب تک تقریباً 19 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ وہیں حالیہ دنوں میں حماس نے بھی کئی بڑے حملے انجام دیتے ہوئے اسرائیل فوج کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ اسی بیچ غزہ کے شجاعیہ محلے میں جھڑپ کے دوران تین یرغمالیوں کے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد تل ابیب میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔
اسرائیل نے یرغمالیوں کی ہلاکت پر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ 'جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت وہ تینوں یرغمالیوں نے سفید جھنڈا اٹھا رکھا تھا بلکہ ان میں سے ایک نے عبرانی زبان میں فوج سے انہیں بچانے کی فریاد بھی کی۔ ان تینوں یرغمالیوں نے بدن کے اوپرے حصلے پر کوئی کپڑا نہیں پہن رکھا تھا یعنی وہ شرٹ لیس (shirtless) تھے۔ فوجی اہلکاروں نے ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان پر گولی چلائی۔'' اس واقعے پر حماس کے ایک ترجمان ابو عبیدہ نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر یرغمالیوں کو ہلاک کیا۔ نیتن یاہو حکومت کو یرغمالیوں اور اسرائییلی شہریوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔'' قابل ذکر ہے اس واقعے کے بعد سے اسرائیل میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے جس کے پیش نظر بنیامن نیتن یاہو کی حکومت نے حماس سے مذاکرات کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
وہیں حماس نے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے ہوئے ہفتے کے روز کہا کہ وہ یرغمالیوں کے تبادلے پر اس وقت تک بات چیت نہیں کرے گی جب تک کہ اسرائیل غزہ پٹی میں اپنی فوجی مہم ختم نہیں کر دیتا۔ حماس نے ایک بیان میں کہا کہ ’’حماس تحریک قیدیوں کے تبادلے پر اس وقت تک کسی قسم کے مذاکرات کرنے کے اپنے موقف کا اعادہ کرتا ہے جب تک کہ ہمارے لوگوں کے خلاف فوجی مہم ختم نہیں ہو جاتی۔‘‘