شام کے شہر ادلب کے ایک گاؤں کے بچوں کو تباہ شدہ عمارتوں سے گزر کر اسکول پہنچنا پڑتا ہے۔
شامی بچے تباہ شدہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور شام میں جاری جنگ کے دوران اسکول کی عمارت کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ اس لیے اسکول کے اساتذہ بچوں کے متعلق کافی فکرمند ہیں۔ اسکول کے پرنسپل ایاد زرق کو خدشہ ہے کہ ابھی مزید بدترین صورتحال کا سامنا کرنا باقی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ "ہم نے کچھ کلاس رومز کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی لیکن اب سردیوں کا موسم شروع ہونے والا ہے اور زیادہ تر کلاس رومز میں کھڑکیوں کی ضرورت ہے۔''
انہوں نے کہا کہ "ہم نے نئے تعلیمی سال 2021-2022 کا آغاز کورونا وائرس کی وجہ سے تاخیر سے کیا۔ آج ہم ایک نیم تباہ اسکول میں ہیں، جس پر حکومت اور روسیوں نے فضائی حملے کیے۔ مقامی لوگوں کی کوششوں سے ہم نے کچھ کلاس رومز کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی لیکن اب سردیوں کا موسم شروع ہونے والا ہے اور زیادہ تر کلاس رومز میں کھڑکیوں کی ضرورت ہے۔''
تعلیمی سال کافی تاخیر سے شروع ہوا کیونکہ پچھلے چند مہینوں میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
ادلب میں تشدد کے معاملے میں اضافے کے درمیان وائرس کے کیسز میں بھی اضافہ درج کیا گیا۔
حالیہ مہینوں میں حکومتی فورسز کے ذریعے فضائی حملوں اور توپ خانے کی گولہ باری سے کئی افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
شام میں گزشتہ دس سالوں سے جاری خانہ جنگی کے درمیان لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں دوسرے ملک میں پچاس لاکھ سے زائد پناہ گزین بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Syrian Farmers: شام میں زراعت کے لیے شمسی توانائی کا استعمال
اسکول کے استاد محمود وہوب کا کہنا ہے کہ کئی سالوں کی جنگ کے بعد بچوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اور اسکول ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے، کیونکہ یہاں سہولیات کا فقدان ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "پچھلے 10 سالوں سے جنگی حالات میں رہ رہے ہیں، ہمیں بچوں اور اسکولوں میں طلباء کے ساتھ بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے اسکولوں میں کئی قسم کے مسائل ہیں، چاہے وہ تدریسی طریقوں کے متعلق ہو، مہارت ہو یا اسکول کا بجٹ ہو۔ کچھ طالب علموں کی تعلیم جنگ کی وجہ سے متاثر ہوئی اور اسی وجہ سے ، 6 ، 7 یا 8 سال کے بچے بھی پہلی جماعت میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ بچوں کو لڑائی کی وجہ سے اسکول چھوڑنا پڑا ہے، جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے۔