تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں 20 ویں شنگھائی تعاون تنظیم کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ (ایس سی او-سی ایچ ایس) کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں فوری انسانی امداد کے لیے بین الاقوامی مدد کو متحرک کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی جہاں اب طالبان کی حکومت ہے۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔
افغانستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور اسلام آباد جنگ زدہ پڑوسی ملک کی حمایت جاری رکھے گا لیکن انھوں نے طالبان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے وعدے پورا کریں۔
خان نے کہا کہ طالبان کے کنٹرول میں آنے اور غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک نئی حقیقت قائم ہوئی ہے اور پاکستان کا مفاد پرامن و مستحکم افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان انہوں نے کہا کہ اب یہ عالمی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی نیا تنازعہ نہ پیدا ہو اور جنگ زدہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔
خان نے کہا کہ افغانستان کو بغیر کسی تاخیر کے انسانی امداد فراہم کرنا ضروری ہے کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ کھڑے ہو کر موجودہ چیلنجز پر قابو پانے میں ان کی مدد کی جائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغان حکومت بنیادی طور پر غیر ملکی امداد پر منحصر ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ انسانی بحران کو روکنا اور معاشی بحران 'یکساں طور پر فوری ترجیحات' ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکمرانوں کو اپنے وعدے بہت اچھے طریقے سے پورے کرنے چاہئے۔
ایس سی او اجلاس سے وزیراعظم کا خطاب، عالمی امن کے لئے شدت پسندی خطرہ
انہوں نے کہا طالبان کو ایک جامع سیاسی ڈھانچے کے لیے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے جس میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی ہو اور افغانستان میں استحکام کے لیے یہ ضروری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اور اقوام متحدہ کے اداروں کی بھی تعریف کی ہے۔
چین ، روس ، قزاقستان ، کرغزستان ، تاجکستان ، ازبکستان ، بھارت اور پاکستان کا آٹھ رکنی ایس سی او گروپ نے دوشنبے میں اپنا 20 واں سربراہی اجلاس منعقد کیا تھا جس میں افغانستان مبصر تھا۔