ایک برطانوی جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔
ڈسٹرکٹ جج وینیسا بارائٹسر نے آج اولڈ بیلی میں فیصلہ سنایا۔
برطانوی عدالت نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے پر روک لگا دی ہے اس کے بعد یہ کیس برطانیہ کی سپریم کورٹ میں جاسکتا ہے۔
اس دوران 49 سالہ اسانج برطانیہ کی جیل میں ہی رہیں گے۔ وہ اپریل سنہ 2019 سے لندن کی جیل میں قید ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بحیرہ روم میں 265 مہاجروں کو بچایا گیا
اس فیصلے کے بعد یہ توقع کی جارہی ہے کہ برطانیہ کی سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے کئی برس لگ سکتے ہیں۔
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج وکی لیکس کے بانی جولین اسانج عدالت میں پیش ہوئے۔ اس دوران عدالت کے فیصلے کے بعد کہا کہ یہ بہت بڑی جیت ہے۔
خیال رہے کہ لندن کے ایکواڈور سفارت خانے سے نکالے جانے کے بعد جولین اسانج کو 11 اپریل 2012 میں لندن میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور تب انہیں 50 ہفتے کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد سے معاملے کی مسلسل سماعت ہو رہی ہے لیکن وہ امریکہ کے حوالے کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسانج پر سویڈن میں ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے الزام لگے تھے۔ امریکہ نے اسانج کی حوالگی کے لیے برطانیہ سے درخواست بھی تھی اور انہیں امریکہ کو سونپنے کی بات بھی کی تھی۔
اسانج دراصل تب سرخیوں میں آئے تھے جب سنہ 2010 میں انہوں نے کئی خفیہ سیاسی دستاویزات انٹرنیٹ پر عام کر دیے تھے، جس میں افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کی جانب سے جنگی جرائم کے غلط استعمال کیے جانے سے منسلک دستاویزات بھی شامل تھے۔