فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ 'مسلم انتہا پسندی قبول نہیں، حجاب پر مکمل پابندی اور مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی'۔
تاہم انہوں نے کہا کہ 'فرانسیسی جمہوریہ میں بیرونی مداخلت سے پاک 'روشن خیال اسلام کی بہت گنجائش موجود ہے'۔
ایمانوئل میکرون نے ٹوئٹ کر کے کہا ہے کہ 'ہمارا ردعمل وسیع تر، زیادہ طاقت ور ہونا چاہئے اور زمین پر پائے جانے والے ٹھوس مسائل کا جواب دینا چاہئے۔ سیکولرازم اور جمہوری اصولوں کو مستحکم کرنے اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف نو دسمبر کو وزرا کی کونسل میں ایک بل پیش کیا جائے گا'۔
جمعہ کو پیرس کے مغربی نواح میں خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والوں کو 'انتہاپسند' قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کانشانہ بنایا ہے ۔
ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ 'فرانس ایک سیکولر ملک ہے یہاں مسلم انتہا پسندوں کو مذہب کا سہارا لے کر علیحدہ متوازی معاشرہ بنانے کی کوشش کرنے کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی کیوں کہ یہ فرانس کی اقدار سے متصادم ہوگا'۔
فرانسیسی صدر کے مطابق 'مسلم اکثریتی محلوں میں مذہبی آزادی کی آڑ میں انتہاپسندی، نفرت اور تشدد کا پرچار کرنے والے فرانس کے لیے خطرہ ہیں'۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ 'فرانس کے گلی محلوں میں انتہاپسندی روکنے کے لیے حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے'۔
حکام کے مطابق 'اس قانون کے ذریعے مقامی سطح پر مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی کڑی نگرانی کی جائے گی، انتہا پسندی پھیلانے والے نجی مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی اور مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغنیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی'۔
ایمانویل ماکروں نے بتایا کہ 'نئے اقدامات کے تحت فرانس میں پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین پر حجاب پہننے کی پابندی کو اب نجی شعبے میں بھی لاگو کیا جائے گا'۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'اگلے برس سے تمام بچوں کے لیے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، اسکول جانا لازمی ہوگا جب کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے نہ کہ مذہبی جذبے سے سرشار پیروکار'۔
فرانسیسی صدر نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیاکہ 'اسلام اس وقت دنیا میں بحران سے دوچار ہے تاہم فرانسیسی جمہوریہ میں بیرونی مداخلت سے پاک روشن خیال اسلام کی بہت گنجائش موجود ہے'۔
واضح رہے کہ فرانس میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے، جہاں لگ بھگ 60 لاکھ مسلمان بستے ہیں، بیشتر مسلم خاندان پرامن اور اعتدال پسند ہیں۔
حکومت کے مجوزہ قانون پر وہاں مقیم مسلم برادری اور رہنماؤں میں خدشات ہیں کہ اس سے 'اسلاموفوبیا' اور ان کے خلاف تعصب کو مزید ہوا ملے گی۔