دنیا بھر میں مسلمانوں کی جانب سے فرانس کے خلاف جاری احتجاج کے دوران فرانسیسی صدر نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو بخوبی سمجھتے ہیں جو پیغمبر اسلام کے کارٹونوں کی نمائش پر سخت ناراض ہیں لیکن یہ گستاخانہ خاکے حکومتی پروجیکٹ نہیں ہے اور نہ ہی ان کو حکومتی حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ جس بنیاد پرستی کیخلاف نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہ تمام لوگوں خاص طور پر مسلمانوں کے لئے خطرہ ہے۔
سنیچر کے روز الجزیرہ نے میکرون کا خصوصی انٹرویو اس وقت نشر کیا ہے جب گستاخانہ کارٹونوں پر فرانسیسی حکومت اور مسلم ملکوں کے مابین سخت کشیدگی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ مسلمان اسے توہین آمیز سمجھتے ہیں۔
مسٹر ایمانوئل میکرون نے فرانس مین گستاخانہ خاکوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان مسلمانوں کے جذبات کو سمجھتے ہیں جو پیغمبر اسلام کے کارٹونوں کی نمائش پر برگشتہ ہیں لیکن یہ گستاخانہ خاکے حکومتی پروجیکٹ نہیں ہے اور نہ ہی ان کو سرکاری حمایت حاصل ہے۔
واضح رہے کہ فرانس کے جریدے ’چارلی ہیبڈو‘ نے 2015 میں اپنے عملے پر جان لیوا حملے کے ملزمان کے ٹرائل کے آغاز کے بعد حال ہی میں دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے آزادی اظہار رائے کے تحت گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا دفاع کیا تھا۔
2 اکتوبر کو انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام عالمی سطح پر بحران کا شکار ہے اور ’اسلام میں اصلاحات‘ لانے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تھا، تاکہ اسے ملک کی جمہوری اقدار کے موافق بنایا جاسکے۔
اس موقع پر فرانسیسی صدر نے اُس کارٹونوں کے بارے میں اپنے موقف کا اعادہ کیا جس کی وجہ سے ایک فرانسیسی استاد کو جنہوں نے کلاس میں اپنے شاگردوں سے اظہار کی آزاد ی پر گفتگو کے دوران کیریچرز دکھائے تھے، ایک شخص نے 16 اکتوبر کو مارڈالا تھا اور پھر گذشتہ ہفتے فرانسیسی سرکاری عمارتوں پر اس کارٹون کو چسپاں کیا گیا۔
ایمانوئل میکرون نے دعوی کیا کہ ان کے خیال میں اشتعال کی وجہ اُن کے حوالے سے منسوب جھوٹی باتیں ہیں اور گستاخانہ خاکوں سے متعلق اُن کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
فرانسیسی صدر نے اپنے اس استدلال کی تائید میں کہا کہ مقامی لوگوں نے ان کے بیان کو سمجھا اور اسی وجہ سے یہاں کوئی ردِعمل نہیں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر عام کر دیا گیا ہے کہ وہ گستاخانہ خاکوں کی تشہیر کے حامی ہیں جبکہ یہ گستاخانہ خاکے نجی صحافتی اداروں نے شائع کیے جو حکومتی اجارہ داری سے آزاد ہیں۔
اگرچہ فرانس کے مسلمانوں نے قتل کے اس واقعے کی مذمت کی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اسلامی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن اور مشتعل گروپوں کی جانب سے مساجد پر حملوں کے باعث انہوں نے اجتماعی سزا کا خوف ظاہر کیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا۔
پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔
استاد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں فرانس کے صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے‘۔
ان کے اس بیان کے بعد پوری مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور مسلم اور اکثریتی آبادی والے ممالک میں فرانس کے خلاف مظاہرے کیے گئے، جبکہ کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا بھی آغاز ہوگیا۔