9 جون کو نیوزی لینڈ اُن نو ممالک میں شامل ہوگیا، جنہوں نے خود کو کورونا وائرس سے پاک قرار دیا ہے۔ 29 مئی کے بعد یہاں وائرس سے متاثرہ کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے کہا کہ وہ اپنے ملک کی اِس کامیابی پر خوشی سے جھوم اُٹھیں۔ نیوزی لینڈ میں تعینات بھارت کے سفیر مکتیش پردیشی کا کہنا ہے کہ طبی شعبے کی جانب سے بروقت انتباہ جاری کرنے، عوام کو صاف گوئی کے ساتھ صورتحال سے آگاہ کرنے اور ملک کی مقبول وزیر اعظم پر نیوزی لینڈ کے عوام کے مکمل اعتماد، جیسی باتوں نے اس ملک کو کورونا وائرس سے نمٹنے میں کامیابی دلائی ہے۔
بھارتی سفیر پردیشی نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیوزی لینڈ اُن چند ممالک میں شامل ہوگا، جہاں اس سال بھی عالمی یوگا ڈے اسی طرح سے منایا جائے گا، جس طرح کووِڈ 19 کی وبا سے پہلے منایا جاتا تھا۔ انہوں نے چین اور نیوزی لینڈ کے درمیان گہرے تجارتی مراسم کے حوالے سے کہا کہ وبا کے بعد اب نیوزی لینڈ میں بھی یہ احساس اُجاگر ہوگیا ہے کہ تجارتی تعلقات کے حوالے سے کسی واحد ملک پر انحصار کے کئی نقصانات ہیں۔ اس لئے اب اس طریقہ کار میں تبدیلی آئے گی۔
ذیل میں انٹرویو کے چند اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں:
سوال: رقبے کے لحاظ سے بھارت اور نیوزی لینڈ کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جس طرح سے نیوزی لینڈ نے کووِڈ 19 سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، اس سے بھارت کو کیا کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے؟
جواب: میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں اِس وقت نیوزی لینڈ میں رہ رہا ہوں۔ اس ملک نے خود کو کورونا وائرس سے پاک کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور اس لحاظ سے یہ دوسرے تمام ممالک کےلئے ایک روڈ ماڈل ہے۔ 9 جون کو نیوزی لینڈ دُنیا کے اُن نو ممالک میں شامل ہوگیا، جو اس وقت کورونا وائرس سے مکمل طور پر پاک ہیں۔ ان ممالک میں نیوزی لینڈ کو اس لئے زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ ملک ترقی یافتہ بھی ہے اور ایک صنعتی ملک بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ مغربی دُنیا سے بھی جڑا ہوا ہے۔ 29 مئی سے یہاں کورونا وائرس کا کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ جبکہ یہاں متاثرین کی مجموعی تعداد 1504 رہی ہے، جن میں کُل بائیس افراد کی موت واقع ہوگئی۔ لیکن یہ ملک اس وبا کو قابو کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ وائرس کو قابو کرنے میں کئی باتوں نے نیوزی لینڈ کی مدد کی ہے۔ ان میں اس کا وسیع رقبہ اور کم آبادی کا عنصر بھی شامل ہے۔ اس کی آبادی پچاس لاکھ افراد پر مشتمل ہے لیکن جغرافیائی رقبے کے لحاظ سے یہ ایک پھیلا ہوا ملک ہے۔ یعنی یہاں لوگ کم ہیں اور ملک کی وسعت بہت زیادہ ہے۔ اس لئے بھارت کے برعکس اس ملک میں لوگوں کا ایک دوسرے سے دوریاں بنائے رکھنا اور الگ تھلگ رہنا یہاں زیادہ آسان ثابت ہوا ہے۔
سوال: بھارت میں ایک سخت ترین لاک ڈاون کیا گیا، لیکن اس کے باوجود وائرس سے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کیا نیوزی لینڈ میں آپ کے مشاہدے میں کوئی ایسی بات آئی ہے، جو آپ بھارت کے تناظر میں کہنا چاہیں گے؟
جواب: نیوزی لینڈ نے وبا پھوٹنے کے بعد جو سب سے اہم عملی اقدام پہلے ہی ہفتے میں کیا، وہ یہ تھا کہ اس نے اپنی سرحدیں سیل کردیں۔ جب یہ پتہ چلا کہ وائرس بیرونی ممالک سے لوٹنے والے طلبا اور دیگر مسافروں کی وجہ سے پھیل رہا ہے، تو نیوزی لینڈ نے سرحدیں بند کردیں۔ لوگوں کو مسلسل جانکاری دی گئی کہ کس طرح سے اس وبا کے پھیلنے کے چار مراحل ہیں اور کس مرحلے پر کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ جب نیوزی لینڈ نے وبا کے حوالے سے پہلے مرحلے کا اعلان کیا تو حکومت نے اسی وقت لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ چوتھے مرحلے پر کیا کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اس لئے جب وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے ملک میں صحت سے متعلق ہائی الرٹ جاری کیا تو لوگ پہلے سے ہی مشکلات کا سامنا کرنے کےلئے تیار تھے۔ میرے خیال سے یہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ یہاں حکومت نے کس طرح سے لوگوں کو اعتماد میں لیا۔ جبکہ وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن کو عوام کا بھر پور اعتماد بھی حاصل ہے۔ اس لئے لوگوں نے حکومت کو بھر پور تعاون دیا۔ لوگوں کو حکومت کے اقدامات پر مکمل اعتماد تھا۔ میں یہ کہوں گا کہ حکومت کی جانب سے عوام کو دی گئی واضح جانکاری اور پیشگی انتباہ جیسی باتوں کی وجہ سے نیوزی لینڈ کو وائرس کو قابو کرنے میں کامیابی حاصل ہوگئی۔
سوال: جنوبی کوریا بھی کووِڈ سے نمٹنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اس کی سراہنا کی جارہی ہے۔ لیکن اس ملک میں بھی وائرس کی دوسری لہر پھیلنے کا احتمال ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں نیوزی لینڈ کون سے احتیاطی تدابیر کررہا ہے؟
جواب: 9 جون کے بعد سے نیوزی لینڈ ہیلتھ الارم کے پہلے سٹیج میں ہے۔ یعنی حکومت نے ابھی مکمل نارملسی کا اعلان نہیں کیا ہے۔ تاہم بھیڑ بھاڑ اور ان درونِ ملک سفر پر اب کوئی پابندی نہیں ہے۔ معاشی سرگرمیاں بھی بحال ہوگئی ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ 95 فیصد معمولات زندگی بحال ہوگئے ہیں۔ سرحدیں بند ہیں۔ ہیلتھ الارم کے اس پہلے سٹیج میں غیر ملکیوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ صرف نیوزی لینڈ کے لوگ ہی بیرونی ممالک سے واپس گھر لوٹ رہے ہیں۔ لیکن گھر لوٹنے والوں کو حکومت کی جانب سے چودہ دن تک قرنطینہ میں رہنا پڑتا ہے۔ گزشتہ ہفتے جب ائر انڈیا طیارے میں نیوزی لینڈ کے شہری یہاں پہنچے تو انہیں سرکاری قرنطینہ مراکز لے جایا گیا۔ نیوزی لینڈ نے اپنی سرحدیں بند کردی ہیں اور فی الحال انہیں بند ہی رکھا جائے گا۔ اب مزید پندرہ دن یا تین ہفتے تک انتظار کیا جائے گا اگر اس عرصے میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو اس کے بعد کئی جزیرہ نما ممالک یا آسٹریلیا کے ساتھ رابطے بحال کئے جائیں گے۔ کیونکہ ان ممالک کے ساتھ نیوزی لینڈ کے قریبی تعلقات ہیں۔ باقی ممالک کےلئے نیوزی لینڈ فی الحال اپنی سرحدیں کھولنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔
سوال: شہری ہوا بازی کے بھارتی وزیر ہردیپ پوری نے اشارہ دیا ہے کہ اگست تک مختصر پیمانے پر ہی، لیکن بین الاقوامی پروازیں بحال کردی جائیں گی۔ کیا نیوزی لینڈ کا بھارت کے ساتھ رابطے بحال ہوجانے کا امکان ہے؟