عراق کے مہاجر کیمپ میں بڑی تعداد میں ایسے افراد رہتے ہیں، جن کا تعلق یزیدی مذہب سے ہے،
خوشحال طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود شدت پسند تنظیم 'داعش' نے انہیں کیمپز میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سنہ 2014 میں جب عراق میں داعش کا ہنگامہ شروع ہوا، تو اس ہنگامے نے نہ جانے کتنوں کے گھر اجاڑ دیے۔
داعش کے شدت پسندوں نے اُن سبھی کو نشانہ بنایا جو ان کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، ان میں بڑی تعداد یزیدیوں کی تھی۔ داعش نے یزیدی مردوں کو سر عام قتل کر دیا، ان کی عورتوں کو یرغما بنا لیا، یہاں تک کہ یزیدی بچوں کو بھی نہیں بخشا۔
اس دہشت کے دور میں ہزاروں کی تعداد میں یزیدی طبقے کے لوگ اپنوں سے بچھر گئے، ان میں سے بڑی تعداد کا آج تک کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
دوہوک کے ایک کیمپ میں رہنے والے یزیدی باشندے حماد سائرو نے بتایا کہ ان کے خاندان کے اب بھی 18 افراد داعش کے ہاتھوں میں ہیں۔ انہیں ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔
حماد سائرو کے گھر کے 22 افراد 2014 میں داعش کے حملے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ ان میں سے صرف 4 افراد ہی واپس آئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی پرامید ہیں۔ انہیں خدا سے امید ہے۔ خدا نے چاہا تو کوئی آ کر ان سے کہے گا کہ وہ فلاں جگہ ہیں، ترکی سیریا یا کوئی اور جگہ، وہ ان کے آنے کی اب بھی امید کرتے ہیں۔
تقریبا 2 ہزار سے زائد یزیدی اب تک لاپتہ ہیں اور ان کے والدین اب بھی اپنے لاڈلوں کی واپسی کی راہیں تک رہے ہیں۔
سنہ 2014 سے اپنے خاتمے تک داعش نے یزیدی مرد و عورت، بوڑھے بچے سبھی کو خوف کے ماحول میں زندگی گذارنے پر مجبور کر دیا تھا، گویا یزیدیوں کے لیے وہ ایک عذاب بن کر آئے تھے۔
علی قاسم ان میں ایک خوش قسمت انسان ہیں، اگرچہ ان کے خاندان کے 4 افراد اب بھی لاپتہ ہیں، لیکن وہ اپنے چھوٹے بھائی انس کو واپس لانے میں کامیاب رہے۔
انس کی عمر محض دو ماہ تھی، جب اسے داعش کے شدت پسندوں نے اس کے اہل خانہ سمیت اغوا کیا تھا۔ ایک برس تک اس کی ماں کے ساتھ شام میں رکھا گیا، بعد ازاں اسے ترکی میں لے جا کر ایک دوسری خاتون کے حوالے کر دیا گیا۔
علی قاسم نے بتایا کہ انس کی واپسی کے بارے میں انہوں نے ایک برس تک کوشش کی، لیکن داعش نے اسے واپس نہیں کیا، آخر کار انہیں ساڑھے دس ہزار امریکی ڈالر دے کر خریدنا پڑا، پیسے دینے کے بعد انہوں نے ابراہیم خلیل کسٹم چوکی پر لاکر چھوڑ دیا۔ اور وہاں نے انس کو حاصل کیا جا سکا۔
ملک کے شمالی علاقے دوہوک میں واقع 'مام راشن کیمپ' میں 17 سو سے زائد خاندان مقیم ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنے گھر واپس لوٹنے کا انتظار ہے، بلکہ اپنے پیاروں سے ملنے کی بے پناہ امیدیں بھی ہیں۔
کیمپ کے مینیجر شیرو سیمو نے بتایا کہ اس کیمپ میں سے بہت سارے لوگ شام کے رقہ اور دوسرے شہروں سے ہیں، جن پر دولت اسلامیہ گروپ کا کنٹرول تھا۔ وہ ہول کیمپ میں ہیں۔ وہاں اب بھی لوگ موجود ہیں ، اور ہم ان کے واپس آنے کے بعد بھی ان کا استقبال کر رہے ہیں۔
شمالی شام میں کردوں کے زیر انتظام 'ہول' نامی ایک کیمپ میں تقریبا 70 ہزار بے گھر افراد پناہ گزیں ہیں۔ کیمپ میں 11 ہزار سے زائد کا تعلق 40 مختلف ممالک سے ہے، جن میں بیشتر داعش کے خاندانوں کے ہیں۔
مبینہ طور پر آئی ایس کے ذریعہ گرفتار کیے گئے کچھ یزیدی بھی وہاں مقیم ہیں۔
کردستان علاقائی حکومت کی ایک سرکاری تنظیم کے مطابق تقریبا 6 ہزار یزیدیوں کو داعش کے عسکریت پسندوں نے اغوا کیا تھا۔ جن میں سے اب تک تقریبا ساڑھے تین ہزار افراد واپس لوٹ چکے ہیں۔ باقی کے اہل خانہ اب بھی اپنے لاڈلوں کی راہیں تک رہے ہیں۔