اردو

urdu

By

Published : May 25, 2020, 11:12 AM IST

ETV Bharat / international

داعش کے چنگل میں 6 برس گذارنے والی یزیدی لڑکی کی داستان

طالو کو سنہ 2014 میں عراق کے شمال مغربی علاقی سنجار سے اغوا کیا گیا تھا۔ ابتدا میں طالو اور ان کے شوہر کی جان اس لیے بچ گئی کیوں کہ دونوں کو جبرا اسلام قبول کروایا گیا۔

sdf
sdf

یہ دردناک داستان، عراق کی رہنے والی لیلی طالو نامی ایک یزیدی خاتون کی ہے، جو گذشتہ 6 برسوں سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے میں قید تھیں۔ بالآخر قید سے آزاد ہو کر اپنے گھر دوبارہ واپس لوٹ آئی ہیں۔

ویڈیو

لیلی کے بیان کے مطابق انہیں داعش کے عسکریت پسندوں نے اغوا کر کے باندی کے طور پر فروخت کر دیا۔ اس طرح 6 برس کی مدت میں وہ متعدد افراد کے ہاتھوں فروخت ہوتی رہیں۔ اب جب کہ وہ اپنے گھر واپس لوٹ چکی ہیں، تو انہوں نے اپنے ان دردناک لمحات کو انتہائی تکلیف اور حسرت کے ساتھ بیان کیا۔

انہوں نے بتایا کہ 'کاش ماضی میں یہاں واپس لوٹ پاتی، چاہے دولت اسلامیہ کے قبضے میں ہی ہوتی۔ کم از کم یہاں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتی میرے بھائی اور میرے شوہر زندہ ہوتے ، چاہے وہ کتنے ہی عرصے تک قید ہوں ، پانچ برس یا اس سے بھی زیادہ'۔

طالو کو سنہ 2014 میں عراق کے شمال مغربی علاقی سنجار سے اغوا کیا گیا تھا۔ ابتدا میں طالو اور ان کے شوہر کی جان اس لیے بچ گئی کیوں کہ دونوں کو جبرا اسلام قبول کروایا گیا۔

اس طرح انہیں وہاں موجود دیگر یزیدی خاندانوں کے ساتھ دوئم درجے کا شہری بنا کر رکھا جاتا اور ان سے بکریاں چرانے کا کام کرایا جاتا تھا۔ اس دوران بہت سارے افراد فرار ہو گئے۔ آخرکار عسکریت پسندوں نے طالو کے شوہر سمیت تمام مردوں کو یکجا کر کے انہیں قتل کر دیا اور ان کی لاشوں کو نزدیک کے ایک گڑھے میں پھینک دیا۔ ان کی ہڈیاں اور کپڑے آج بھی گڑھے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسی گڑھے میں داعش کے عسکریت پسندوں نے طالو کے شوہر کو قتل کر کے پھینک دیا تھا

طالو کا مزید کہنا ہے کہ 'ہمیں معلوم تھا کہ وہ ہمیں اس گھر سے باہر لے جانے والے ہیں۔ ہمیں اس بات کی فکر تھی کہ کہیں انہیں ہمارے موبائل فون کے بارے میں پتہ نہ چل جائے۔ تبھی میں اور میری بھابی، دونوں نے اسی جگہ موبائل فونز اور سگریٹ دفن کر دیے'۔

گذشتہ 6 برس گرفتاری سے قبل طالو نے موبائل فون گھر میں ہی دفن کر دیا تھا

طالو کو گرفتار کرنے کے بعد ایک ہوٹل میں رکھا گیا، جس کی موجودہ حالت انتہائی خستہ نظر آ رہی ہے۔ یہاں سے لے جانے کے بعد طالو کو ایک باندی کے طور پر فروخت کر دیا گیا۔

سب سے پہلے طالو کو ایک عراقی ڈاکٹر کے ہاتھوں فروخت کیا گیا، جس نے تین دن بعد اپنے دوست کو تحفے میں دے دیا۔ بعد ازاں وہ ایک عراقی سرجن عبد اللہ کی ملکیت بن گئیں، جنہوں نے آٹھ مہینوں تک اپنے پاس رکھا۔ اس کے بعد طالو کو ایک سعودی شخص کے ہاتھوں بیچا گیا۔ متعدد بار جنسی زیادتی کے بعد انہیں ابو حمزہ نامی ایک دوسر سعودی شخص کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔

طالو نے بتایا کہ وہ ابو حمزہ کے پاس دو بار حاملہ ہوئیں، لیکن اسقاط حمل کرا دیا گیا۔ ان تمام مشکل حالات میں طالو کے دو چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ساتھ رہے۔

کچھ روز کے بعد ان کے موجودہ مالک سے ساڑھے سات ہزار امریکی ڈالر کے عوض انہیں آزاد کرنے کی بات کہی، لیکن اس آزادی کا مطلب داعش کے دوسرے عسکریت پسند سے شادی کرنا تھا۔

آخر کار طالو نے داعش کے چنگل سے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا اور اسمگلرز کی مدد سے ساڑھے 19 ہزار امریکی ڈالر کے عوض وہ اس مصیبت سے آزاد ہونے میں کامیاب رہیں۔

طالب نے آزادی ملنے کے بعد اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'جب میں یہاں تھی تب میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے کبھی آزادی ملے گی۔ خدا کا شکر ہے کہ آج میں یہاں ہوں اور آزاد ہوں، لیکن میں ان مشکلات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی'۔

اس ہوٹل کی موجودہ حالت، جہاں طالو کو گرفتاری کے بعد داعش نے رکھا تھا۔

داعش کے اغوا، غلامی اور ہزاروں یزیدی لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی کہانی سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ داعش کا منصوبہ کس قدر اعلی سطح پر تیار کیا گیا ہو گا۔

کرد عہدیداروں اور محققین کے مطابق اگست سنہ 2014 میں سنجار پر حملے کے دوران اغوا کیے گئے 6،417 یزیدیوں میں سے تقریبا 3،500 افراد حالیہ برسوں میں فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ ان میں سے ایک طالو کی بھانجی بھی ہے، جو رواں برس فروری ماہ میں واپس لوٹی ہے۔

خیال رہے کہ اب تک 2،900 سے زائد یزیدی لاپتہ ہیں، جن میں 1،344 خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ محققین کا خیال ہے کہ بیشتر افراد ہلاک ہوگئے ہیں، جبکہ اب بھی شام میں حکومت کے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں رہ رہے ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details