یہودیوں کا 'ہار ہمینیچوٹ' نامی قبرستان تل ابیب سے یروشلم جانے والی شاہراہ کے قریب پہاڑیوں پر واقع ہے۔
دنیا کا سب سے انوکھا قبرستان عموما اسرئیلی افراد اپنے عزیزوں کی تدفین کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ تاہم اسرائیلی کارکنان پہاڑ کے نیچے ایک نئے قبرستان کی تعمیر کر رہے ہیں۔
سرنگی قبروں کی تعمیر کرنے والی کمپنی 'رولر ٹنلنگ' کے چیف ایگزیکٹیو ایرک گلیزر کا ماننا ہے کہ دور جدید کا یہ پہلا انڈر گراونڈ قبرستان ہے۔ لیکن مستقبل میں تدفین کی یہ شکل عام ہو جائے گی۔
فلسطین کے یروشلم میں مردوں کی تدفین کے لیے قبرستان کی نوعیت میں کی جانے والی تبدیلی دنیا کا ایک انوکھا معاملہ ہے۔
تقریبا ڈیڑھ کلو میٹر تک زیر زمین سرنگوں والے اس قبرستان کے لیے تین برسوں سے تعمیری کام جاری ہے۔ یہاں مستقبل میں بڑی تعداد میں تدفین کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
سرنگ کی وسعت 14 بائی 16 فٹ ہے، جس میں 23 ہزار لاشوں کی تدفین کو ممکن بنایا جا سکے گا۔ اس کی تعمیر میں 50 ملین یورو یعنی ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد امریکی ڈالر کا خرچ ہوا ہے۔
زمین کے اندر یہ قبرستان دالانوں کا ایک وسیع کمپلیکس ہے۔ یہاں ہر دالان میں سینکڑوں پلاٹز بنائے گئے ہیں، جہاں مُردوں کو دفنایا جائے گا۔
قبرستان پروجیکٹ کے ذمہ دار ہینا شاہور کا کہنا ہے کہ انہیں عوام میں پرجیکٹ کی مقبولیت سے متعلق انتہائی تشویش تھی۔ تاہم ربی سے مشورے کے بعد انہیں اس بات کا اطمینان ہوا کہ زیر زمین قبرستان کے منصوبے کو صد فیصد افراد بخوشی قبول کر لیں گے۔
ماہر آثار قدیمہ امیت ریم نے بتایا کہ تقریبا 3 ہزار برس قبل یہودیوں کی تدفین دو مراحل میں کی جاتی تھی۔ پہلے مرحلے میں لاش کو 8 ماہ کے لیے ایک غار میں ڈال کر غار کو ڈھک دیا جاتا تھا۔
دوسرے مرحلے میں جسم کے گلنے کے بعد غار سے باقی ماندہ ہڈیوں کو یکجا کر کے ایک مخصوص شخص کے ہاتھوں کھودے گئے گڑھے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اس گڑھے کو 'ذخیرہ' کہتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ یہودی قوم میں روح سے پرے مُردہ جسم کی بھی انتہائی اہمیت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ روح کے بغیر بھی جسم کی اہمیت کا کوئی بدل نہیں ہے۔
زیر زمین قبرستان کو دور جدید میں اپنی نوعیت کا پہلا قبرستان کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جس کے ذریعہ دور قدیم کی یہودی قبروں کو دوبارہ نکالا جا سکتا ہے۔