انہوں نے روس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'روس نے ادلب میں جنگ بندی کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کی ہے، تاہم روس نے اس سے انکار کیا تھا۔'
عینی شاہدین کے مطابق ترکی کا فوجی قافلہ کفر لوسین سرحدی گذرگاہ سے شامی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔
باغیوں کے قبضہ والے شمال مغربی علاقے ادلب اور حلب کے لیے ترکی کی تین ٹکڑیوں کو روانہ کیا گیا ہے۔ تاہم ان فوجی قافلوں کو بھیجنے کے بعد ترکی اور روس کے درمیان مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
دراصل شامی حکومت کو روس کی حمایت حاصل ہے، لہذا ترکی کا شامی حدود میں اپنے فوجی دستے بھیجنا نہ صرف شامی حکومت بلکہ روسی حکومت کو بھی ناراض کرے گا۔
برطانوی تنظیم 'ہیومن رائٹ' کے مطابق ترکی کا پہلا فوجی قافلہ چالیس ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں، سفری گاڑیوں اور فوجی اور لاجسٹک آلات پر مشتمل ہے۔
حلب کے جنوب مغرب میں واقع ایک قصبے پر روس کے فضائی حملوں کے بعد آوازیں سنی گئی ہیں۔ رصدگاہ کے مطابق ترکی کا پہلا فوجی قافلہ اسی علاقے کی جانب آیا تھا۔ روس کے فضائی حملوں میں نو شہری ہلاک ہوگئے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس سے قبل آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادلب میں جنگ رکوانے کے لیے ترکی فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ انھوں نے روس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس نے ادلب میں جنگ بندی کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کی ہے، تاہم روس نے اس سے انکار کیا تھا۔
خیال رہے کہ سنہ 2011 سے ہی شام میں خانہ جنگی اور ابتری کا ماحول ہے۔ اس دوران لاکھوں افراد بے گھر جبکہ ہزاروں کی جانیں گئی ہیں۔
شام کا شمال مغربی علاقہ ہی اس وقت باغی گروپز کے قبضے میں باقی رہ گیا ہے۔ اس میں ادلب اور اس سے متصل حلب کے علاقے شامل ہیں۔ ماضی میں باغیوں کے زیر کنٹرول دیگر سبھی علاقے بشارالاسد کی فوج نے روس اور ایران کی فوجی مدد سے واپس اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔