طالبان کی نئی حکومت کا اعلان جلد متوقع ہے۔ اس سے قبل طالبان کے ترجمان مجاہد نے اٹلی کے لاری پبلک اخبار سے کہا ’’ ہم جلد ہی قومی اتحاد کی نئی حکومت تشکیل دیں گے۔ ہم پچھلی وزارتوں کی تعداد سے صرف آدھی تعداد کے ساتھ حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین قرآن اور شریعت کی بنیاد پر وزیر نہیں بن سکتیں، لیکن خواتین وزارتوں، پولیس محکموں اور عدالتوں میں معاون کے طور پر کام کر سکتی ہیں‘‘۔
ترجمان نے کہا کہ افغان خواتین کو یونیورسٹیوں میں جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ پنجشیر میں مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات کا کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بین الاقوامی تعلقات کا تعلق ہے، تو طالبان چین کو اہم شراکت دار سمجھتے ہیں جو افغانستان میں سرمایہ کاری اور ملک کی تعمیر نو کے لیے تیار ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغانستان میں جلد ہی بننے والی حکومت میں کسی خاتون وزیر کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
طالبان کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایاکہ توقع ہے کہ تحریک کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ ایک گورننگ کونسل پر حتمی اختیار حاصل کر لیں گے جس کے نیچے ایک صدر ہوگا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی عطیہ دہندگان اور سرمایہ کاروں کی نظر میں نئی حکومت کی قانونی حیثیت افغانستان کی معیشت کے لیے اہم ہو گی جو طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد ختم ہونے کا امکان ہے۔ غیرملکی خبر رساں کی رپورٹ کے مطابق طالبان عہدیدار احمد اللہ متقی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ کابل میں صدارتی محل میں ایک تقریب کی تیاری کی جارہی ہے جبکہ نجی نشریاتی ادارے طلوع نے کہا کہ نئی حکومت کے بارے میں اعلان جلد متوقع ہے۔
طالبان کے سپریم لیڈر کے تین نائب ہیں: تحریک کے مرحوم بانی ملا عمر کے بیٹے مولوی یعقوب، طاقتور حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی اور گروپ کے بانی ارکان میں سے ایک ملا عبدالغنی برادر ہیں۔چند دن قبل دوحہ میں طالبان عہدے داروں نے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد ہی حکومت کا اعلان کیا جائے گا، جس میں نئے چہرے شامل ہوں گے، جو لوگ سابقہ حکومتوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں، انھیں نئی حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔